1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدر اوباما، صوبہ سرحد کیا سوچتا ہے؟

فرید اللہ خان، پشاور21 جنوری 2009

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی صوبہ سرحد اور ملحقہ قبائلی علاقے فرنٹ لائن ہونے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں اس شورش سے تنگ سرحد اور قبائلی عوام، وائٹ ہاؤس میں صدارت کی تبدیلی کوخوشگوار قراردے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Gdmu
باراک اوباما صدارتی مہم میں افغانستان کا دورہ کر چکے ہیںتصویر: AP

زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے تبدیلی کانعرہ لگایا ہے اورلازماً یہ تبدیلی امریکہ سمیت دنیا میں بھی آئے گی۔ لوگوں کی رائےیہ بھی ہے کہ امریکہ کی مالی بحران کی بڑی وجہ عراق اورافغانستان میں جنگی پالیسیاں ہیں اوراگر صدر بش کی پالیسیوں پرنظرثانی شروع کی گئی تونہ صرف امریکی معیشت کو سہارا دیاجاسکتاہے بلکہ اسکے مثبت اثرات عرب ممالک سمیت جنوبی ایشیاء کے متعدد ملکوں پربھی پڑسکتے ہیں۔ نئے امریکی صدر باراک اوباما سے جہاں عام لوگوں نے بہتری کی توقعات وابستہ کررکھی ہیں وہاں سرحد کے سیاستدانوں کو بھی یقین ہے کہ باراک اوباما سابق ادوار کی پالیسیوں پرنظرثانی کریں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سرحدکے وزیر اطلاعات میاں افتخارحسین کاکہنا ہے: ’’ ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ ایسے فیصلے کریں گے جو دنیا میں امن کا باعث بنیں گے ان کے پاس یہی ایک موقع ہے کہ وہ دنیا بالخصوص عالم اسلام میں امریکہ کی ساکھ بحال کرانے کے لئے اقدامات اٹھائیں ہم توقع رکھتے ہیں کہ ان کی انتظامیہ کے فیصلوں سے خطے میں امن قائم ہوگا۔ اوباما کوہماری طرف سے یہ آواز پہنچنی چاہیے کہ یہی وہ موقع ہے کہ وہ دنیا میں امریکی ساکھ کو بہتر بنانے کے لئے اوردنیا میں امن لانے کےلئے عوام کے خواہشات کے مطابق پالیسیاں بنائیں۔‘‘

لیکن مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر صابرشاہ کے کچھ خدشات بھی ہیں ان کا کہنا ہے: ’’ اگر بش کی پالیسیوں کو آگے بڑھایاگیا تو یہ یقینا امریکہ کیلئے تباہی کا باعث ہوگا۔‘‘

پیپلزپارٹی شیرپائو سے تعلق رکھنے والے رکن سرحداسمبلی اسراراللہ گنڈا پور کاکہنا ہے : ’’ باراک اوباما ووٹ کے ذریعے آئے ہیں ووٹ کی دباؤ کی وجہ سے وہ بش کی پالیسیاں یقینا جاری نہیں رکھیں گے انہوں نے تبدیلی کے نام سے ووٹ لیا ہے اورانہیں امریکی عوام کو یہ تبدیلی دکھانی پڑے گی وہ بش کی پالیسیوں کے تسلسل کویقینا جاری نہیں رکھیں گے۔‘‘

پیپلز پارٹی کے رکن سرحد اسمبلی عبدالاکبرخان کا کہنا ہے : ’’ساری دنیا جانتی ہے کہ بش کی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا میں فائدے کی بجائے نقصانات زیادہ ہوئے ہیں توہم سمجھتے ہیں کہ جونئے منتخب امریکی صدر ہیں وہ اوران کی انتظامیہ ان تمام باتوں پر غور کرکے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کے لئے اقدامات اٹھائیں گے۔‘‘

سرحد کے سینئر وزیر بشیراحمد بلور کا کہنا ہے : ’’ امریکہ میں جب بھی ڈیموکریٹ برسراقتدار آئے ہیں وہ ہمیشہ اچھے طریقے سے معاملات چلاتے ہیں اورمجھے یقین ہے کہ جتنے بھی مسائل ہیں ان کے حل کے لئے موثرپالیسیاں بناکراس پرقابو پالیں گے ۔‘‘

لیکن قائد حزب اختلاف اورسابق وزیراعلیٰ سرحد اکرم خان درانی کی رائے سب سے مختلف ہے ان کا کہنا ہے کہ باراک اوباما کے آنے سے نہ تو ہمیں کوئی بڑی امید رکھنی چاہیے اورنہ ہی حالات میں بہتری آنے کی کوئی توقع ہے کیونکہ امریکہ میں جو بھی صدر آتا ہے وہ پہلے سے موجود پالیسیوں کوآگے بڑھاتا ہے لہذا باراک اوباما وہی پالیسیاں آگے بڑھائیں گے جو پہلے سے جاری ہیں۔‘‘

سرحد کے اکثریتی سیاستدانوں کا کہنا ہے باراک اوباما کویہ آواز پہنچنی چاہیے کہ وہ امریکی پالیسیوں پرنظرثانی کرتے ہوئے جنگی پالیسیوں کو دوام بخشنے سے اجتناب کریں گے اوردنیا میں امن کے قیام کیلئے پالیسیاں مرتب کریں۔