1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدر کی اقتدار سے جبری علیحدگی نامنظور، یمنی جنرل

12 اگست 2011

یمن کے صدر علی عبد اللہ صالح کے بھتیجے بریگیڈیر جنرل یحییٰ محمد عبد اللہ صالح نے متنبہ کیا ہے کہ اگر کسی دھڑے نے صدر صالح کو بزور طاقت اقتدار سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی، تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/12Fg7
صدر صالح کے خلاف عوامی مظاہرہ، فائل فوٹوتصویر: picture alliance / dpa

بریگیڈیر جنرل یحییٰ محمد، جو مرکزی سکیورٹی فورسز کے سربراہ کی حیثیت سے کافی اثر و رسوخ اور اختیار رکھتے ہیں، نے ایک انٹرویو میں کہا کہ کسی کو یمن کو کھلی جنگ میں دھکیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ان کا واضح اشارہ طاقتور الحاشد قبائلی اتحاد کے ایک دھڑے کے رہنما صادق الاحمر کی فورسز اور صدر کے پرانے ساتھی لیکن بعد میں ان کے مخالف ہو جانے والے جنرل علی محسن کی جانب تھا۔ انہوں نے کہا، ’بعض قوتیں تصادم کی جانب گامزن ہیں، مگر میں یمن کے عوام کو ایک بار پھر یقین دلاتا ہوں کہ ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ملک کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔‘

Jemen Stammesmitglieder auf dem Art Platz in Sanaa
صنعاء میں علی عبداللہ صالح کے خلاف مظاہرہ کرنے والے قبائلی کارکن، فائل فوٹوتصویر: DW

یمنی صدر عبد اللہ صالح خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد اس وقت سعودی عرب میں زیر علاج ہیں۔

بدھ کو یمنی حکومت کے ایک عہدیدار نے کہا تھا کہ صالح اپنے عرب ہمسایہ ملکوں کی جانب سے اقتدار کی منتقلی کے لیے پیش کیے گئے ایک منصوبے پر دوبارہ غور کریں گے۔ لیکن صدر پہلے بھی تین بار اپنے وعدوں سے پھر چکے ہیں اور خدشہ ہے کہ کہیں جزیرہ نما عرب کا یہ ملک ایک بار پھر طوائف الملوکی کی لپیٹ میں نہ آ جائے، جس سے بالآخر وہاں مضبوطی سے پنجے گاڑے القاعدہ کو فائدہ پہنچے گا۔

سیاسی دباؤ میں اضافہ :

صدر عبد اللہ صالح اتوار کو ریاض کے ہسپتال میں تھے، جہاں ان کے جسم کے جھلسے ہوئے حصوں اور دیگر زخموں کا علاج ہو رہا ہے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق صدر نے بدھ کو ریاض میں اپنے ساتھ قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے والے وزیر اعظم اور دیگر وفادار عہدیداروں سے ملاقات میں اقتدار کی منتقلی کے منصوبے پر تبادلہء خیال کیا۔ یہ منصوبہ سعودی عرب سمیت یمن کے چھ متمول ہمسایہ ملکوں پر مشتمل خلیج تعاون کونسل نے پیش کیا ہے، جو واشنگٹن کے ان خدشات میں شریک ہیں کہ یمن میں افراتفری سے القاعدہ کے حوصلے بلند ہو سکتے ہیں۔

Flash Galerie Ali Abdullah Saleh
یمنی صدر صالح علاج کے لیے سعودی عرب جانے کے بعد سے اب تک وہیں مقیم ہیںتصویر: dapd

اسی خدشے کی بازگشت منگل کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی سنائی دی، جب اس نے یمن کے جنوبی صوبے پر اسلام پسندوں کے قبضے کے بعد انسانی بحران کا ذکر کیا۔ یمنی حکومت کے ایک عہدیدار نے کہا کہ یمن سے متعلق اقوام متحدہ کے ایلچی جمال بن عمر کی جلد ہی صنعاء میں آمد متوقع ہے اور صدر حزب اختلاف کی جماعتوں اور غیر ملکی طاقتوں سے اقتدار کی منتقلی پر تبادلہ خیال کریں گے۔

جنرل صالح نے انتقال اقتدار کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو صدر کے عہدے کی میعاد 2013 تک ہے، تاہم اگر کوئی سیاسی معاہدہ طے پا گیا، تو پھر مختلف صورت حال ہو گی۔ انہوں نے صدر عبد اللہ صالح کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے جنوری سے یمن کی سڑکوں پر آنے والے مظاہرین کے ان دعووں کو غلط قرار دیا کہ سرکاری فورسز ان پر گولی چلا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سڑکوں پر انسداد دہشت گردی فورسز موجود ہیں اور انہیں مظاہرین کے خلاف استعمال نہیں کیا جا رہا۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں