1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صلاح الدین نہیں، انسانیت نے دم توڑ دیا

5 ستمبر 2019

اگر نام نہاد قانونی چارہ جوئی اور اقدامات موثر ثابت ہوتے اور ان سے معاشرے میں پائی جانے والی انتہا پسند سوچ، اذیت پسند رجحان اور درندہ صفت عوامل میں کمی کی بجائے اضافہ کیوں دیکھنے میں آ رہا ہے؟ کشور مصطفیٰ کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3P72Y
Mustafa Kishwar Kommentarbild App

صلاح الدین کیس کی عدالتی تحقیقات کی درخواست قبول کر لی گئی ہے۔ اس طرح وزیر اعلیٰ پنجاب نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صلاح الدین کے باپ کا ایک اہم مطالبہ مان لیا ہے لیکن پاکستان میں انصاف کی حدیں شاید یہیں ختم ہو جاتی ہیں۔

صلاح الدین کیس کے بارے میں کئی روز سے میڈیا پر دلخراش اور وحشت ناک تفصیلات سامنے آ رہی ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت پنجاب نے ایک ایس ایچ او سمیت تین اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے اور ڈی ایس پی سمیت دیگر ملوث اہلکاروں کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔  ساتھ ہی صلاح الدین کے والد کے اس مطالبے کو بھی تسلیم کر لیا گیا کہ ان کے بیٹے کے کیس کی تفتیش پولیس کی بجائے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار خود کروائیں۔

لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر یہ معاملہ سوشل میڈیا پر نہ اٹھایا جاتا تو پھر بھی اس کیس کی اسی طرح تحقیقات کی جاتیں؟ تو اس کا جواب نہیں میں ہے۔ کیوں کہ یہ کوئی پہلا واقعہ تو ہے نہیں جس پر کوئی ٹھوس رد عمل سامنے آنا ضروری تھا۔ حکومت پنجاب کے نوٹس میں تو آئے دن تشدد، انسانیت کی توہین، کم سن بچوں سے لے کر ہر عمر کے انسانوں کے ساتھ ہونے والی ہر طرح کی زیادتیوں کی کہانیاں آتی ہی رہتی ہیں۔ کچھ پر نام نہاد ایکشن لے کر میڈیا کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے اور کچھ کیسز میں متاثرین کو کچھ دے دلا کر اُن کے زبان بندی کردی جاتی ہے۔

یوں تو پورا ملک میں ہی ایسے درندہ صفت عناصر سامنے آتے رہتے ہیں جنہیں انسان کہنا انسانیت کی توہین لگتی ہے مگر پاکستان کا سب سے زرخیز اور سب سے بڑا صوبہ اس معاملے میں بھی سبقت لے جاتا ہے۔ بچوں کے جنسی استحصال اور ان کے ساتھ دیدہ و دانستہ زیادتیوں کی ویڈیوز بنانے والے مجرم پیشہ گروپ ہوں، چار پانچ سال کی عمر کی لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر انہیں موت کے گھاٹ اتارنے والے ہوں، مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو دن دھاڑے زد و کوب کرنے والے اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھنے والے معتبر شہری ہوں، جائیداد کے جھگڑے کا حل کسی کی زندگی لے کر نکالنے والے لالچ و طمع میں مبتلا افراد ہوں یا زندہ انسانوں اور مردہ انسانی لاشوں کے اعضاء کا کاروبار کرنے والے منظم جرائم پیشہ گروپ ہوں، یہ سب اس صوبے میں دندناتے نظر آئیں گے۔

میڈیا تک کوئی بات پہنچ جائے اور وہ اس پر شور کرے تو عدالتی تحقیقات کے وعدوں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دی جاتی ہے۔ کسی غریب کے گھر کا کوئی چشم و چراغ وحشی درندوں کے ہاتھوں بُجھ گیا تو جرم ثابت ہونے پر مجرم کو چند برسوں کی سزائے قید  سنا دی اور کیس بہت ہی دردناک ہوا تو متاثرین یا لواحقین کو کچھ رقم دے کر چُپ کرا دیا گیا۔

اگر یہ نام نہاد قانونی چارہ جوئی اور اقدامات موثر ثابت ہوتے اور ان سے معاشرے میں پائی جانے والی انتہا پسند سوچ، اذیت پسند رجحان اور درندہ صفت عوامل میں کمی کی بجائے اضافہ کیوں دیکھنے میں آ رہا ہے؟

اے ٹی ایم کو توڑ کر اس میں سے کارڈ نکالنے والا صلاح الدین ایک ذہنی مریض تھا۔ یہ بات اُس کے والد نے بتائی اور یہ بھی کہ دماغی خلل کی وجہ سے انہوں نے اپنے بیٹے کے بازو پر اُس کا نام اور پتہ کندہ کروا رکھا تھا تاکہ کہیں وہ گم نہ ہو جائے۔ اے ٹی ایم سے کارڈ نکالتے ہوئے صلاح الدین کی جو ویڈیوز منظر عام پر آئی اسے دیکھ کر کوئی کمزور نظر انسان بھی کہ سکتا ہے کہ وہ نارمل نہیں بلکہ ذہنی طور پر بیمار تھا۔

ذہنی طور پر معذور اس انسان کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جیالے پولیس اہلکاروں نے جو سلوک کیا، اس کی تفصیلات جان کر تو لگتا یہ ہے کہ صلاح الدین نہیں بلکہ اُسے اپنی درندگی کا نشانہ بنانے والے اور ان جیسے درندوں کو معاشرے میں ناسور کی طرح پالنے والے ذہنی مریض ہیں۔ پولیس میں تشدد کے کلچر کی بات ہو رہی ہے۔ یہ اُس معاشرے کو زیب دیتا ہے جس میں مہذب  انسانی اقدار کی بودو باش پائی جاتی ہو؟ کیا پاکستانی معاشرہ کبھی مہذب بن پائے گا؟ اس میں ناکامی کے ذمہ دار کون کون سے عناصر ہیں؟ ان سوالات کے ساتھ میں اپنے قارئین کو جگانا چاہتی ہوں۔ سوچیے، مثبت سوچ پر عمل کیجیے اور ہر سطح پر بُرائی کا قلع قمع کرنے کی کوشش کیجیے۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔