1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صومالیہ کی صورتحال

22 مارچ 2007

صومالیہ میں صورتحال ایک بار پھر کشیدہ ہوتی جا رہی ہے ۔ افریقی یونین کی امن فوج تعینات ہونے کے باوجود حالات ٹھیک نہیں ہو رہے۔

https://p.dw.com/p/DYHC
تصویر: picture-alliance/dpa

کچھ عرصہ پہلے جب صومالیہ میں اسلامی ملیشیاءکے مزاحمت کار ایتھوپیا اور سرکاری فوجوں کی پیش قدمی کے بعد پسپاءہوگئے تھے تو اسی وقت یہ کہا گیا تھا کہ اس ملک کے مسائل کا حل بیرونی عناصر نہیں بلکہ اندرونی طور پر مصالحتی کاوشیں ہیں ۔ گزشتہ روز موغادیشو میں ہونے والی لڑائی کے دوران سولہ افراد ہلاک ہو ئے جبکہ آج بھی دارلحکومت گولیوں کی آوازوں سے گونج رہا ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایتھوپیا کے فوجی بھی شامل ہیں جن کی لاشیں کل لوگ موغادیشو کی سٹرکوں پر گھسیٹتے رہے ، یعنی یہ بات ثابت ہوگئی کہ صومالیہ کی جنگ حکومت اور چند باغی عناصر کے درمیان نہیں بلکہ لوگ بیرونی طاقتوں سے بھی نفرت کرتے ہیں ۔

صومالیہ میں قیام امن کے لئے افریقی ممالک نے امن فوج بھی بھیج رکھی ہے لیکن صورتحال اتنی خراب ہے کہ یہ بارہ سو فوجی پورے ملک میں امن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ ادھر صومالیہ کی حکومت ابھی تک اپنے پرانے موقف پر قائم ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ ساری گڑ بڑ اسلامی ملیشیاءکی آڑ میں القاعدہ عناصر کی پیدا کردہ ہے ۔ نائب وزیر دفاع صالح علی جیلی نے کہا ہے کہ القاعدہ نے افغانستان میں تربیت یافتہ عدن ہاشی Ayro کو صومالیہ میں تنظیم کا سربراہ مقرر کر دیا ہے جس نے شہاب نامی جنگی گروپ کی قیادت کرتے ہوئے سرکاری فوجوں پر حملے تیز کردئیے ہیں۔

صومالیہ کی حکومت واشنگٹن کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ اس خطے میں عدن ہاشی آئیرو کی شکل میں القاعدہ موجود ہے جس کے خاتمے کے لئے وہ ہر طرح کی امداد کے مستحق ہیں۔
ادھر موغادیشو کے شمال میں رمضان کے نواحی علاقے سے بھی لڑائی کی اطلاعات ہیں اور ایتھوپیا کے ٹینک متاثرہ علاقے کی جانب جاتے دکھائی دئیے ہیں ۔ صومالیہ کی حکومت ابھی تک افریقی ممالک کی بجائے ایتھوپیا کی فوجی امداد پر زیادہ انحصار کررہی ہے ۔

اسی دوران اسلامی ملیشیاءکے ایک اہم راہنماءشیخ حسن داہر Aweys نے پہلی بار منظر عام پر آتے ہوئے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سرکاری اور ایتھوپیا کی فوجوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔ اسی دوران موغادیشو میں جاری لڑائی کی وجہ سے سینکڑوں لوگ پناہ کے لئے دوسرے علاقوں کی جانب نکل کھڑے ہوئے ہیں ۔ مبصرین کے خیال میں صومالیہ میں جب تک تمام گروپوں سے بات چیت شروع نہیں ہوتی حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے ۔