1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات اواخر فروری میں؟

امجد علی7 فروری 2016

افغانستان میں پندرہ سال سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے موضوع پر اسلام آباد میں منعقدہ چہار فریقی مذاکرات میں افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان اس ماہ کے آخر تک براہ راست مذاکرات کے لیے کوششوں پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hr3k
Islamabad Friedensallianz für Afghanistan
چھ فروری 2016ء کو اسلام آباد میں پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کی قیادت میں چہار فریقی مذاکرات کے تیسرے مرحلے کا انعقادتصویر: picture-alliance/dpa

افغانستان، پاکستان، چین اور امریکا گزشتہ کئی ہفتوں سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی فضا قائم کرنے کی تیاریوں میں مصروف رہے ہیں۔ دوسری جانب طالبان نے 2014ء میں افغانستان سے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد سے اب تک ملک کے کئی علاقوں میں کامیاب پیش قدمی کی ہے۔

اگرچہ افغان طالبان میں ایک دوسرے کے حریف دھڑوں کی جانب سے کابل حکومت کے ساتھ مفاہمتی عمل میں شریک ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے مختلف طرح کے خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے تاہم حکام اس حوالے سے پُر امید نظر آ رہے ہیں کہ کم از کم چند طالبان دھڑے ایسے ہیں، جو ان مذاکرات میں شرکت پر آمادہ ہو جائیں گے۔

ہفتہ چھ فروری کو پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں ان ملکوں کے حکام کی جانب سے کہا گیا کہ ان کے درمیان ’اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان گروپوں کے نمائندوں کے مابین براہِ راست مذاکرات کے لیے کوئی تاریخ مقرر کرنے کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی، جو ممکنہ طور پر فروری 2016ء کے اواخر میں منعقد ہو سکتے ہیں‘۔

افغان طالبان کی سینیئر قیادت کا کہنا تھا کہ اُس نے اسلام آباد میں ہفتے کے روز منعقدہ چہار فریقی مذاکرات میں اس بناء پر شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ اُنہیں اس اجلاس میں ریاست ہائے متحدہ امریکا اور افغان حکومت کے نمائندوں کی موجودگی پر اعتراض تھا۔

افغان طالبان کے سب سے بڑے دھڑے کے قائد ملا اختر محمد منصور کے ساتھ وابستہ ایک سینیئر رہنما نے کہا: ’’ہم مکالمت پر یقین رکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ تمام تر معاملات بات چیت کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں، لیکن ہمیں امریکا اور اُس کی کٹھ پتلی افغان حکومت پر کوئی اعتبار نہیں ہے۔‘‘

افغان حکومت کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے رواں ہفتے نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ طالبان میں سے کچھ عناصر چھ ماہ کے اندر اندر مذاکراتی عمل کا حصہ بن سکتے ہیں تاہم حکام کی جانب سے تازہ ترین بیانات اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اب ان مذاکرات کو چھ ماہ سے بھی کہیں پہلے عمل میں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

Islamabad Friedensallianz für Afghanistan
ان مذاکرات کے بعد جاری کردہ بیان کے مطابق ’افغان حکومت اور طالبان گروپوں کے مابین براہِ راست مذاکرات ممکنہ طور پر فروری 2016ء کے اواخر میں ہو سکتے ہیں‘تصویر: picture-alliance/dpa

اگرچہ افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان براہِ راست مذاکرات کے انعقاد کے حوالے سے کافی زیادہ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں تاہم اسلام آباد میں چھ فروری کے اجلاس میں شریک چاروں ممالک کے حکام کے خیال میں یہ مذاکرات وہ واحد فوری امکان ہیں، جس کے ذریعے افغانستان میں جاری جھڑپوں کو ختم کروایا جا سکتا ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے اس اجلاس کے موقع پر اپنے افتتاحی بیان میں کہا تھا کہ ’اس بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے تمام تر کوششیں اور وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں‘۔ ان چاروں ممالک کا اگلا اجلاس 23 فروری کو کابل میں ہونا طے پایا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید