1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان قیادت پاکستان میں نہیں، رحمان ملک

2 اکتوبر 2009

پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ امریکہ طالبان کی اعلیٰ قیادت کی پاکستان میں موجودگی سے متعلق معلومات فراہم کرے۔ اسلام آباد حکام کی جانب سے یہ بیان امریکی دباؤ میں اضافے کے بعد سامنے آیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Jvxl
پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملکتصویر: AP
US General Stanley McChrystal
افغانستان میں نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل میک کرسٹلتصویر: AP

افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت پاک افغان سرحدی علاقے میں موجود ہے۔

افغانستان میں تعینات امریکی اور نیٹو افواج کے سربراہ جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کی افغانستان سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان کے سربراہ ملا عمر پاکستان میں موجود ہیں۔ اس رپورٹ کے مندرجات منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان نے اپنے ردعمل میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکہ کے پاس اس حوالے سے معلومات ہیں تو اسلام آباد کے حوالے کی جائیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے جمعرات کو ایک بیان میں اس حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

رحمان ملک نے کہا کہ ملا عمر سمیت طالبان قیادت کی پاکستانی شہر کوئٹہ میں موجودگی کے حوالے سے امریکی کمانڈر کا بیان ایک خدشے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

اس سے قبل بھی امریکہ کی جانب سے کئی مرتبہ کہا گیا ہے کہ افغان طالبان کی مرکزی شوریٰ اور سربراہ ملا عمر پاکستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں موجود ہیں۔

رحمان ملک نے کہا کہ پاکستان نے امریکہ کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ یہ افراد کوئٹہ میں موجود نہیں۔ اگر امریکہ کے پاس کوئی واضح ثبوت ہے تو پاکستان کے حوالے کیا جائے تاکہ اسلام آباد اس پر بھرپور کارروائی کرے۔

گزشتہ ہفتے جنرل میک کرسٹل کی منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغان عسکریت پسندوں کی اعلیٰ قیادت پاکستان میں مقیم ہےاور وہ وہاں پر بیٹھ کر مختلف چھوٹے بڑے انتہا پسند گروپوں کی مدد کرتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان کی خفیہ تنظیم آئی ایس آئی کے کئی عناصر ان عسکریت پسندوں کی امداد کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر این پیٹرسن نے بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ کوئٹہ میں موجود طالبان شوریٰ واشنگٹن کے لئے اہم ترین اہداف میں سے ایک ہے۔ کئی ماہ سے ایسی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ امریکہ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں کی طرح کوئٹہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر بھی ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کر سکتا ہے۔ پاکستان حکومت پہلے ہی ڈرون حملے روکنے کے مطالبے کرتی رہی ہے۔ پاکستانی حکومت کا موقف ہے کہ ایسے حملوں سے عوام میں امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتا ہے جس کا فائدہ براہ راست عسکریت پسندوں کو پہنچتا ہے۔

Soldat in Mingora / Pakistan
پاکستانی فوج ملک کے شمال مغربی علاقوں میں طالبان کے خلاف آپریشن کر رہی ہےتصویر: AP

دوسری جانب انٹرنیشنل ری پبلیکن انسٹیٹوٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک تازہ ترین سروے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی حمایت کے خلاف ہے۔ سروے رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستانی عوام کی واضح اکثریت اپنی حکومت سے امریکہ کی معاونت نہ کرنے کی خواہشمند ہے۔

رپورٹ: عاطف توقیر

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید