1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سوویت طالبان کمانڈر‘ پر دہشت گردی کے الزامات ثابت ہو گئے

عاطف بلوچ8 اگست 2015

امریکی شہر رچمنڈ میں وفاقی جیوری نے سابق سوویت یونین کے ایک فوجی کو دہشت گردی کے ایک مقدمے میں قصوروار قرار دے دیا ہے۔ ایرک حمیدالین افغانستان میں تعیناتی کے دوران مسلمان ہو گیا تھا اور طالبان کے ساتھ شامل ہو گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1GC0g
ایرک حمیدالین کو 2009 ء میں گرفتار کیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/AP Photo

خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ رچمنڈ کی وفاقی جیوری نے جمعہ آٹھ اگست کو آٹھ گھنٹے کی طویل بحث کے بعد ایرک حمید الین پر عائد تمام تر الزامات کی توثیق کر دی۔ اس جنگجو کو چھ نومبر کو سزا سنائی جائے گی۔ مذہب اسلام قبول کر لینے والے سابق سوویت یونین کے ٹینک کمانڈر ایرک پر پندرہ الزامات عائد کیے گئے تھے، جن میں دہشت گردی کی انتظامی مدد جیسے الزامات بھی شامل تھے۔ پچپن سالہ ایرک کو 2009ء میں مشرقی افغانستان کے صوبے خوست میں افغان بارڈر پر پولیس کے اڈے پر حملے کی منصوبہ بندی جیسے الزامات کا بھی سامنا تھا۔

ایرک حمیدالین پہلا افغان جنگی قیدی ہے، جس کو امریکا میں عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یاد رہے کہ خوست میں 2009ء میں کیا گیا یہ حملہ ناکام بنا دیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں تیس افغان جنگجو مارے گئے تھے۔ اس دوران ایرک واحد طالبان جنگجو تھا، جو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اسے ابتدائی طور پر بگرام جیل میں رکھا گیا تھا تاہم بعد ازاں اسے امریکا منتقل کر دیا گیا۔ ایرک کے وکلاء کے مطابق یہ ایک عجیب بات ہے کہ کسی کو افغانستان کے میدان جنگ سے گرفتار کر کے امریکا منتقل کر دیا گیا ہو اور پھر اس کے خلاف وفاقی عدالتی کارروائی شروع کر دی گئی ہو۔

ایرک کے وکلاء کا مؤقف تھا کہ ایسے شواہد کافی نہیں ہیں کہ ان کا مؤکل امریکی فوجیوں کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ اس ’سوویت افغان طالبان‘ کمانڈر پر گزشتہ برس فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ ان الزامات میں امریکی ہیلی کاپٹرز کو تباہ کرنے کی سازش بھی شامل تھی۔ تاہم اس حملے میں نہ تو کوئی امریکی ہیلی کاپٹر تباہ ہوا اور نہ ہی کوئی امریکی فوجی ہلاک ہوا تھا۔ اس کارروائی میں ایرک حمید الین کے کولہوں اور دھڑ کے نچلے حصے پر شدید چوٹیں آئی تھیں۔ اس عدالتی کارروائی کے دوران بھی ایرک کو وہیل چیئر پر ہی کمرہ عدالت میں پیش کیا جاتا رہا تھا۔

استغاثہ کے مطابق ایرک نے اس حملے کی کئی ماہ تک تیاری کی تھی اور اس مقصد کے لیے اس نے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں سے باقاعدہ منظوری لی۔ استغاثہ نے یہ بھی کہا کہ اس تمام کارروائی کو کامیاب بنانے کی غرض سے ایرک نے طالبان جنگجوؤں کو بھرتی کیا اور اسلحہ بھی حاصل کیا۔

Gefängnis Bagram Kabul Afghanistan Archiv 2012
گرفتار کیے جانے کے بعد ایرک کو پانچ برس تک بگرام ایئر بیس پر رکھا گیاتصویر: MASSOUD HOSSAINI/AFP/Getty Images

اس عدالتی کارروائی میں سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ آیا ایرک حمیدالین نے ذاتی طور پر امریکی یا افغان سپاہیوں پر فائرنگ کی تھی یا نہیں۔ تین فوجیوں کی گواہی کے مطابق انہوں نے ایرک کی AK- 47 رائفل کو ہوا میں بلند ہوتے ہوئے اور اس میں سے گولیاں نکلتے ہوئے دیکھیں لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ فائرنگ ایرک نے کی تھی۔ تاہم ایرک کو زیر کرنے والے ایک امریکی ماہر نشانہ باز نے عدالت میں کہا کہ اس نے ایرک کو فائرنگ کرتے نہیں دیکھا تھا۔

ایرک حمیدالین 80 کی دہائی میں سابق سوویت فوج میں بطور ٹینک کمانڈر افغانستان میں تعینات رہا تھا۔ اس جنگ کے خاتمے کے بعد وہ افغانستان منتقل ہو گیا تھا، جہاں اس نے مذہب اسلام قبول کرتے ہوئے طالبان کی تحریک میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ 2009ء میں گرفتار کیے جانے کے بعد ایرک کو پانچ برس تک بگرام ایئر بیس پر رکھا گیا اور پھر اسے امریکا منتقل کر دیا گیا تھا۔