1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کو مارتے ہوئے مکالمت کی دعوت دینا مشکل، نواز شریف

عاطف توقیر24 اکتوبر 2015

پاکستانی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اسلام آباد افغانستان میں قیام امن کے لیے کابل حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کے آغاز میں تعاون کے لیے تیار ہے، تاہم طالبان کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ مکالمت کی دعوت نہیں دی جا سکتی۔

https://p.dw.com/p/1GtYW
Pakistan - Premierminster Nawaz Sharif
تصویر: Getty Images/S. Gallup

جمعہ تئیس اکتوبر کے روز واشنگٹن میں امریکی ادارہ برائے امن سے اپنے خطاب میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے افغان طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے افغان صدر اشرف غنی سے بات چیت کی ہے۔ نواز شریف کے مطابق اشرف غنی سے کہا گیا کہ پاکستان افغان امن عمل کے احیاء کے لیے تیار ہے، تاہم ایک طرف طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا اور دوسری طرف ان کو مارتے جانا ایک ساتھ ممکن نہیں۔

امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کے ایک روز بعد واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینک یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس یا امریکی ادارہ برائے امن سے اپنے خطاب میں پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان نے داخلی طور پر طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کو تباہ کر دیا ہے۔

Pakistans Premier Sharif mit afghanischem Präsidenten Ghani in Kabul
نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے صدر اشرف غنی سے کہا ہے کہ طالبان کے خلاف عسکری کارروائیاں کرتے ہوئے مذاکرات کی دعوت نہیں دی جا سکتیتصویر: AFP/Getty Images/S. Marai

ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکا افغان قیادت میں مفاہمتی عمل کے لیے پاکستانی کوششوں کو سراہتا ہے، تاہم پاکستان کی جانب سے بار بار اصرار کیا گیا ہے کہ ’قتل کرو اور بات چیت کرو‘ ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

اس امریکی عہدیدار کا کہنا تھا، ’’ایک کامیاب سیاسی عمل کے لیے ضروری ہے کہ ایسے عناصر جو عام شہریوں اور ریاست کے خلاف طاقت کا استعمال کر کے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان پر دباؤ برقرار رکھا جائے۔‘‘

اس امریکی عہدیدار نے مزید کہا، ’’ہم اسلام آباد کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ امن مذاکرات کو مؤثر بنانے کے لیے داخلی سطح پر طالبان بشمول حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیاں کرے۔‘‘

اس عہدیدار نے بتایا کہ پاکستانی وزیر اعظم اور امریکی صدر کے مابین ملاقات میں نواز شریف کو باور کرایا گیا کہ واشنگٹن انتظامیہ ایسے عناصر کے خلاف پاکستانی تعاون چاہتی ہے، جو امریکی فورسز پر حملوں کی منصوبہ بندی میں مصروف ہوں۔

’’ہمیں یقین ہے کہ کہ طالبان پر پاکستانی دباؤ طالبان کی قیادت کو یہ سوچنے پر مجبور کرے گا کہ وہ عسکری ذریعے سے اپنے سیاسی اہداف حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘

اس امریکی عہدیدار نے تاہم یہ بھی کہا کہ پاکستان نے امریکا کے ساتھ مشترکہ اعلامیے میں حقانی نیٹ ورک سمیت تمام عسکریت پسند گروپوں کے انسداد کے لیے کارروائیوں پر اتفاق کیا ہے۔ واضح رہے کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں دہشت گردانہ واقعات میں ملوث رہا ہے اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس ایس کے ساتھ روابط ہیں۔

اپنی تقریر میں پاکستانی وزیر اعظم نے بھی کہا کہ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ اسلام آباد حکومت چاہے کہ افغانستان میں تشدد جاری رہے۔

یہ بات اہم ہے کہ پاکستانی معاونت سے افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان امن مذاکرات کا ایک دور پاکستانی شہر مری میں منعقد ہوا تھا، تاہم اس سلسلے کے دوسرے دور سے قبل طالبان کے سربراہ ملا عمر کے انتقال کی خبر سامنے آ جانے پر یہ دور منسوخ ہو گیا اور اس کے بعد سے اب تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔