1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’طالبان کے بہترین جنگجوؤں کی تربیت ایران کر رہا ہے‘

5 جولائی 2018

طالبان اور افغان حکام کے مطابق ایرانی اسپیشل فورسز سینکڑوں طالبان عسکریت پسندوں کو ایرانی فوجی اداروں میں اعلی درجے کی عسکری تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ افغان سرزمین پر واشنگٹن اور تہران کی پراکسی جنگ میں تیزی آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/30tA3
DW 60 Jahre Afghanistan Krieg 22.12.2011
تصویر: picture-alliance/dpa

مشہور برطانوی اخبار دا ٹائمز کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق ایران کی طرف سے طالبان جنگجوؤں کو فراہم کی جانے والی تربیت، پیمانے، معیار اور دورانیے کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ برطانوی اخبار کے مطابق یہ نہ صرف افغانستان میں ایران اور امریکا کی پراکسی جنگ کی پالیسی میں تبدیلی ہے بلکہ اس طرح ایران افغان جنگ کے نتائج پر بھی اثرانداز ہونے کی قابلیت حاصل کر رہا ہے۔

کوئٹہ شوریٰ کے رکن اور طالبان کے ایک سیاسی مشیر کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دا ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ایرانیوں کی طرف سے تربیت کی پیش کش دو شرائط کے ساتھ کی گئی تھی۔ ایک تو یہ کہ توجہ امریکی اور نیٹو فورسز پر مرکوز کی جائے گی اور دوسرا داعش پر حملوں میں اضافہ کیا جائے گا۔‘‘

طالبان کے اس اڑتیس سالہ سیاسی مشیر اور افغانستان کے سنگین ڈسٹرکٹ کے اس سابق بم ساز کا مزید کہنا تھا کہ طالبان اور ایرانی اسپیشل فورسز کے درمیان ششماہی تربیتی کورس کے حوالے سے مذاکرات رواں برس موسم بہار میں اس وقت شروع ہوئے تھے، جب صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ عالمی جوہری معاہدے سے نکلنے کی تیاری میں تھے۔

اس برطانوی اخبار کے دعوے کے مطابق اس کے بعد طالبان کے بہترین اور نوجوان فائٹرز کو مئی میں چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں ایران بھیجا گیا تھا، جہاں وہ ایرانی فوجی حکام سے ملے اور پھر انہیں تربیتی کیمپوں تک لے جایا گیا۔

Afghanistan Taliban
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer

بتایا گیا ہے کہ اس طرح کا ایک کیمپ کرمانشاہ میں ہے لیکن افغان انٹیلی جنس کے عہدیداروں کے مطابق اس طرح کے کئی کیمپ ہو سکتے ہیں۔ افغان طالبان کے ذرائع کے مطابق رواں برس کے آغاز پر افغانستان کے چونتیس اضلاع میں تین سو تک ایرانی ویزے مہیا کیے گئے تھے۔

گزشتہ عید کے موقع پر چھٹیوں پر آنے والے پچیس سالہ طالبان کمانڈر الیاس نوید کا افغانستان کے ایک سیو ہاوس میں دا ٹائمز کی ٹیم سے ملاقات کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میری تربیت رمضان سے دس دن پہلے کرمانشاہ میں شروع ہوئی تھی۔‘‘ اس کا مزید کہنا تھا، ’’ہم پانچ سو سے چھ سو کے قریب لوگ ہیں اور سب کی تربیت مختلف مراحل میں ہے۔ ہمیں حکمت عملی، قیادت، مہارت، بھرتیوں، بم سازی اور ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔ تمام تربیت کاروں کا تعلق ایرانی اسپیشل فورسز سے ہے، ان کی پشتو انتہائی اچھی ہے اور ہم سے اچھا سلوک کرتے ہیں۔‘‘

طالبان کی میزبان ایران حکومت

نوید تعلیم یافتہ بھی ہے جبکہ آئی ٹی اور سوشل میڈیا کا استعمال بھی اچھی طرح جانتا ہے۔ طالبان کے نئی نسل کے جنگجوؤں کی طرح  بم سازی کے ساتھ ساتھ چھاپہ مار کارروائیوں میں بھی مہارت رکھتا ہے۔

نوید کے بیانات افغانستان کے ان فوجی اور انٹیلی جنس حکام کے بیانات سے بھی ملتے ہیں، جو ایران پر امریکی پابندیوں اور ردعمل میں امریکی مفادات پر حملوں سے خبردار کر چکے ہیں۔ افغان قومی فوج کے ایک ڈپٹی کور کمانڈر کا دا ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہر گزرتے دن کے ساتھ طالبان مضبوط اور ان کا دائرہ کار وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب طالبان پر پاکستان کا اثرو رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان دو طرفہ کھیلتا آیا ہے اور اسے اعتماد کی کمی کا سامنا ہے۔‘‘

اس افغان عہدیدار کے مطابق تاریخی طور پر ایران کابل حکومت کا اتحادی اور طالبان کا مخالف رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں پاسدران انقلاب کے خصوصی یونٹ القدس فورس نے طالبان کی ’وسیع حمایت‘ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، ’’پاکستان طالبان کا اصولی اتحادی اور مددگار ہے لیکن اب طالبان نے ان کے ساتھ روابط کا سلسلہ کم کرنا شروع کر دیا ہے۔‘‘

نوید کے مطابق وہ تربیت مکمل کرنے کے بعد اپنے کمانڈر کے سامنے جوابدہ ہو گا اور اس کا کمانڈر ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ اسے کس کے خلاف لڑنا ہے۔

ا ا / ع ا