1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے خلاف سخت فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے: رحمان ملک

28 اپریل 2009

حکومت پاکستان نے جنگجوؤں کو خبردار کیا ہے کہ وہ بونیر سے نکل جائیں ورنہ ان کے خلاف سخت عسکری کارروائی کی جائے گی۔ دوسری طرف مولانا صوفی محمد کے ترجمان نے انتباہ کیا ہے کہ عسکری کارروائی روک دی جائے۔

https://p.dw.com/p/Hfju
رحمان ملک نے جنگجوؤں کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا ہےتصویر: Abdul Sabooh

وزیر اعظم کے مشیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق انہیں اطلاعات ملی ہیں کہ بونیر میں ابھی بھی تقریبا 450 جنگجو موجود ہیں۔ رحمان ملک نے انہیں یہ علاقہ فوری طور پر خالی کرنے کے لئے کہا ہے۔ اُنہوں نے تنبیہہ کی کہ دوسری صورت میں اُن کے خلاف سخت فوجی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ تاہم مولانا صوفی محمد کے ترجمان محمد عالم نے عسکری کارروائی کی صورت میں سخت نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ عسکری کارروائی روک کر مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔

حکومت پاکستان نے مالا کنڈ ڈویژن میں طالبان جنگجوؤں کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کا اطلاق سوات، بونیر اور دیر زیریں کے اضلاع پر بھی ہوتا ہے۔ پاکستانی افواج کی طرف سے بونیر اور دیر زیریں میں فوجی کارروائی سے قبل ہی امریکہ کو یہ شدید خطرہ لاحق تھا کہ اس امن معاہدے کے نتیجے میں پاکستانی علاقوں میں القاعدہ اور طالبان باغیوں کو محفوظ ٹھکانے دستیاب ہو جائیں گے اور یہ صورتحال نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ کے لئے بھی خطرے کا باعث ہو گی۔

دریں اثناء دیر زیریں میں فوجی کارروائی جاری ہے اور صوبائی حکومت کے مطابق اس کارروائی کے نتیجے میں اب تک تقریباً تیس ہزار شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔ صوبائی حکومت کے ترجمان میاں افتخار حسین نے بتایا ہے کہ حکومت گزشتہ چند دنوں میں دیر زیریں کے میدان نامی علاقے سے بے گھر ہونے والے تیس ہزارافراد کو پناہ مہیا کرنے کے لئے سرگرم ہے۔ ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لڑائی سے متاثرہ افراد کو پشاور اور نوشہرہ کے اضلاع میں پناہ دی جا رہی ہے۔

Selbstmordanschlag in Pakistan
فوج اور جنگجوؤں کے مابین لڑائی کےنتیجے میں ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیںتصویر: AP

عینی شاہدین کے مطابق پاکستانی فوج کی طرف سے جنگجوؤں کے خلاف جنگی ہیلی کاپٹروں اور بھاری اسلحے کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق اس لڑائی میں اب تک تقریباً 50 جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا ہے جبکہ آٹھ سیکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ فوج نے جنگجوؤں کے کئی اہم ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ فوجی ترجمان کے مطابق دیر زیریں کے علاقے لال قلعہ میں جنگجوؤں کے ایک اہم ٹھکانے کو بھی تباہ کر دیاگیا ہے۔

رواں سال فروری کے مہینے میں حکومت پاکستان نے جنگجوؤں سے مذاکرات کے بعد علاقے میں قیام امن کے لئے سوات وادی میں اسلامی نظام عدل نافذ کرنے کی اجازت دی تھی۔ تاہم بحران زدہ وادیء سوات میں قیام امن ممکن نہ ہوسکا اورجنگجوؤں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا، جس کے بعد پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ان جنگجووں کے خلاف کارروائی شروع کی۔

پیر کے دن صوفی محمد نے سوات امن مذاکرات ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان نے یہ فوجی کارروائی امریکہ کے دباؤ پر شروع کی۔ صوفی محمد کے ترجمان امیر عزت خان نے کہا ہے کہ دیر زیریں کے علاقے میں فوجی کارروائی امن معاہدے کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ حکومت کی طرف سے ایسے عمل پر ردعمل سامنے آسکتا ہے۔

تاہم صدر پاکستان آصف علی زرداری نے پیر کے دن کہا کہ سوات امن معاہدہ ابھی تک قائم ہے۔ ایک غیر ملکی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے زرداری نے کہا کہ وہ اس معاملے پر صوبہ سرحد کی حکومت سے بات کریں گے اور بعدازاں اس بارے میں حتمی فیصلہ پارلیمان کرے گی۔

عاطف بلوچ/ امجد علی