1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے خلاف نیٹو کی جنگ، روسی تجربے کی روشنی میں

24 ستمبر 2009

70 کی دہائی کے اواخر ميں سوويت يونين نے افغانستان پر چڑھائی کی تھی۔ تاہم سوالاکھ سے زائد فوج اورسازوسامان کی مکمل برتری کے باوجود سوويت يونين افغان مجاہدین کوشکست نہيں دے سکا۔

https://p.dw.com/p/Jnrt
تصویر: AP

سن 2001 سے افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ جاری ہے۔اس جنگ کے بارے میں روس کیا سو چتا ہے؟ روسی کہتے ہيں کہ افغانستان ميں جنگ ميں صرف شکست ہی ہوسکتی ہے۔ اس لئے وہ وہاں اپنا کوئی فوجی بھيجنا نہيں چاہتے۔ اس کے باوجود کريملن اصولاً القاعدہ کے دہشت گردوں کے خلاف نيٹو کی جنگ کی حمايت کرتا ہے۔ عسکری امور کے مشہور روسی ماہر آليکزانڈر گولٹس کا کہنا ہے:’’روس کو سب سے زيادہ خطرہ وسط ايشيا سے ہے۔ قازقستان اور روس کے درميان عملی لحاظ سے کوئی سرحد نہيں ہے۔ اگر اس خطے ميں کوئی تنازعہ پيدا ہوا تو ہزاروں پناہ گزين ہمارے ملک کا رخ کريں گے۔ ان ميں ڈاکو اور لٹيرے، منشيات اور اسلحے کا ناجائز کاروبار کرنے والے بھی شامل ہوں گے۔‘‘

Luftangriff in Afghanistan
اتحادی افواج نے اکتوبر 2001 ء میں افغانستان پر حملہ کیاتصویر: AP

ماسکو،سابق سوويت رياست کرغیزستان ميں امريکيوں کی فوجی موجودگی پر اعتراض کرتا ہے۔ اس نے ايک ارب کے قرضے کا لالچ دے کر کرغیزستان پر دباؤ ڈالا تھا کو وہ امريکيوں کو ماناس کا اہم فضائی اڈہ استعمال نہ کرنے دے۔ اس کے مقابلے ميں امريکيوں نے ايک ملين ڈالر کی پيشکش کی اورصورتحال ويسی ہی رہی جيسی کہ اس سے پہلے تھی۔

تاہم امريکی صدر اوباما کے ماسکو کے پہلے دورے ميں اس سلسلے ميں روسی مدد پيش کی گئی تھی۔ روسی صدر ميدويديف نے کہا تھا: ’’ ہم نے ايک اہم موضوع پر بات چيت کی ہے، جس ميں ہماری سرگرميوں کے درميان رابطہ نہایت اہم ہے۔ ميری مراد افغانستان سے ہے۔ قريبی تعاون کے بغير اس شعبے ميں کاميابی نہیں ہوسکتی۔‘‘

روس نے امريکہ کواجازت دی کہ اس کے ہتھيار، فوجی دستے اور ضروری اشيا لے جانے والے طيارے سال ميں چار ہزار مرتبہ روس کی فضا کو استعمال کرسکتے ہيں۔ افغانستان کے معاملے پر نيٹو کے لئے روسی نمائندے روگوسين نے جو اپنے سخت رويے کے لئے مشہور ہيں، تعاون کا مظاہرہ کيا۔

US Bomber
امریکی فضائیہ کا بی 52 بمبار طیارہتصویر: AP

افغانستان ميں آئی سيف کے امريکی کمانڈر مک کرسٹل کہہ رہے ہيں کہ جنگ ہارے جانے کا خطرہ ہے ليکن اب بھی اسے جيتنے کا موقع باقی ہے۔ مگر اس کے لئے امريکی فوج میں اضافہ ضروری ہے۔ روسی فوجی ماہر گولٹس کوکم ہی اميد ہے کہ نيٹو کی فوج افغانستان ميں کامياب ہوسکتی ہے۔ وہ صدر اوباما کے اس منصوبے کو لايعنی سمجھتے ہيں کہ افغان فوج اور پوليس کو تربيت دينے کے بعد امريکی فوج کو واپس بلا ليا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ جتنی طويل ہوتی جائے گی، فوجی کاميابياں اتنی ہی کم ہوتی جائيں گی۔ افغان فوج کی لڑنے کی صلاحيت بہت کم ہے اور اس ميں کرپشن کا بہت زور ہے۔ اس فوج کو تربيت دينے کے لئے عشروں کی مدت درکار ہے اور جس طرح روسی يہ کام نہيں کرسکے اسی طرح امريکی بھی نہيں کرسکتے۔گولٹس نے کہا کہ انہيں کوئی راستہ نظر نہيں آتا۔

انہوں نے يہ بھی کہا کہ نيٹو کی فوج کی واپسی کے ساتھ ساتھ افغان حکومت پر طالبان کا دباؤ بڑھتا جائے گا۔ وسط ايشيائی رياستوں ميں اسلامی شدت پسندوں کے اثر ميں اضافہ ہوگا اور روس ميں اس مسئلے پر غور کيا جارہا ہے۔

رپورٹ: اشٹيفن لاک / شہاب احمد صديقی

ادارت: عدنان اسحاق