1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی اسمارٹ شہروں کا پہلا تجربہ: سَن تَن دیر

عابد حسین6 اپریل 2016

سَن تَن دیر نامی تاریخی بندر گاہی شہر کو گلوبل اسمارٹ شہروں کی لیبارٹری قرار دیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک اِس شہر میں جا بجا کوڑےکرکٹ کے ڈھیر اور گندگی کے ڈرم بھرے رہتے تھے لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IQ8H
تصویر: Getty Images/AFP/A. Gillenea

ہسپانوی بندرگاہی شہر سَن تَن دیر اپنے خوبصورت ساحلوں اور عالیشان ہوٹلوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے لیکن کچھ عرصہ قبل تک شہر کے اندر پھیلی گندگی شہری انتظامیہ کے لیے دردِ سِر بن چکی تھی۔ اِس شہر کو اسمارٹ شہر کا درجہ ملنے کے بعد ڈیجیٹل سینسرز کئی مقامات پر نصب کر دیے گئے ہیں۔ اِس طرح دنیا بھر میں اسمارٹ شہروں کے نئے ابھرتے تصور میں آزمائش کا سلسلے بحرِ اوقیانوس پر واقع اِس شہر کو حاصل ہوا ہے۔ اسمارٹ سٹی سے مراد ایسا شہر لیا جا رہا ہے جہاں ہر قسم کی ڈیجیٹل معلومات دستیاب ہو اور وہاں کسی بھی ہنگامی صورت حال میں سینسر خود بخود الارم بجانا شرورع کر دیتے ہیں۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ ہزاروں اطلاعاتی سینسروں سے شہر کی ہیت بدل کر رہ گئی ہے۔ ان سینسرز سے اطلاع فوری طور پر شہر کی انتظامیہ کو موصول ہوتی ہے اور فوری طور پر عملی اقدامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسپین کے خود مختار علاقے کنٹابریا کا دارالحکومت سَن تَن دیر میں صرف چار سو سینسر تو شہر کے وسطی حصے کی سڑکوں پر نصب کیے گئے ہیں تا کہ جہاں پارکنگ موجود ہے، اُس کی اطلاع موٹر کار چلانے والوں کو فوری طور پر دستیاب ہو سکے۔ سڑکوں کے چوراہوں پر سگنلز میں لائٹ پینل نصب ہیں تا کہ ٹریفک نہ ہونے کی صورت میں سگنلز دوسری جانب کی ٹریفک کھول دے۔

Smart City Santander
سَن تَن دیر میں صرف چار سو سینسر تو شہر کے وسطی حصے کی سڑکوں پر نصب کیے گئے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Gillenea

شہری انتظامیہ نے اسمارٹ فونز کے لیے سَن تَن دیر کا ایک ایپ تیار کیا ہے اور اُسی کے ذریعے ہر قسم کی معلومات دستیاب ہو سکتی ہیں۔ پارکنگ فیس بھی اِسی ایپ سے ادا کرنے کی سہولت موجود ہے۔ اِس شہر کو اسمارت سٹی بنانے کا تصور سن 2009 میں کنٹابریا یونیورسٹی کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پروفیسر لوئیس مُونوز نے پیش کیا تھا۔ انہوں نے شہر میں پارکنگ کے گھمبیر مسئلے کے تناظر میں یہ تصور شہری انتظامیہ کے سامنے رکھا تھا۔ اب سات برسوں بعد پروفیسر لوئیس مُونوز کے خواب کو تعبیر مل گئی ہے اور شہر کے پونے دو لاکھ کے قریب باسی ایک زندہ لیبارٹری کا حصہ بن چکے ہیں۔ کوڑے کرکٹ کے ڈرم بھی بھرنے پر اطلاع کرتے ہیں اور بارش کی اطلاع بھی یہی سینسر فراہم کرتے ہیں۔

سَن تَن دیر شہر کو اسمارٹ سٹی میں تبدیل کرنے کے حوالے سے یورپی یونین کی مالی امداد بھی شہری انتظامیہ کو حاصل ہوئی۔ شہر کے مختلف مقامات پر تقریباً بیس ہزار سینسرز نصب کرنے کے لیے مختلف یونیورسٹیوں کا تعاون بھی حاصل کیا گیا۔ یہ سینسر سڑک کے اسفالٹ کے نیچے نصب کیے گئے ہیں اور پھر اِن کا کنکشن اسٹریٹ لیمپ کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔ پروفیسر مونوز کے مطابق نصب شدہ انفراسٹرکچر کے حوالے سے سَن تَن دیر سارے یورپ کا انتہائی جدید رابطہ کاری والا شہر بن گیا ہے۔

حال ہی میں اِس تجربے سے استفادہ کرنے کے لیے سنگاپور کا ایک خصوصی وفد اِس شہر میں پہنچا اور اُس نے پروفیسر مونوز کے ساتھ کئی ملاقاتیں کی ہیں۔ اسی طرح امریکا کے شہر بوسٹن اور ڈنمارک کے آرہُوس نے بھی اس میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔