1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی تنظیم برائے تجارت کی وزارتی کانفرنس کا آغاز

30 نومبر 2009

عالمی تنظیم برائے تجارت WTO کے زیراہتمام منعقد ہونے والی سہ روزہ کانفرنس پیر کے روز جنیوا میں شروع ہوگئی۔ اس کانفرنس میں 153 رکن ممالک کے وزرائے تجارت شرکت کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/KmNW
تصویر: AP

اس کانفرنس میں شریک متعدد وزرا اور سفارت کار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ امریکہ، اس بین الاقوامی تنظیم کےحتمی مسودے کی تیاری میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا ہے۔

عالمی تجارتی تنظیم کے زیراہتمام اس اجلاس میں مختلف ممالک نے اپنے اپنے مخصوص معاشی پس منظر اور گزشتہ دو برسوں سے جاری اقتصادی بحران کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کے تناظر میں، اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ڈبلیو ٹی او کے ڈائریکٹرجنرل Pascal Lamy نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا:" نیا عالمی تجارتی سمجھوتہ بہت حد تک اس بات کا ضامن ہوگا کہ دنیا کو پھر سے کسی بڑے اقتصادی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘‘

اس مجوزہ معاہدے کے تکنیکی پہلوکی کیا اہمیت ہے اور اس پر کس حد تک کام مکمل کر لیا گیا ہے، اس حوالے سے پاسکل لامے کا کہنا تھا:"تمام تر مشاہدہ بتاتا ہےکہ ستمبر کے بعد سے متعدد تکنیکی پہلوؤوں پر کا م مکمل کیا جا چکا ہے۔‘‘

لیکن ترقی پزیر ممالک کے وزرائے تجارت کی طرف سے اس بات پر بہت زور دیا گیا کہ سن 2001 میں، دوحہ میں ہونے والی گفت وشنید کے تناظرمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان مذاکرات کو کسی حتمی نتیجے سے ہمکنار کیا جائے۔

دوحہ مذاکرات کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل پاسکل لامے کا کہنا تھا:"عالمی تجارتی معاملات کے حل کے لئے ضروری ہے کہ دوحہ کانفرنس کے دوران طے پاجانے والے مستقبل کے لائحہ عمل کو سن 2010 ء تک حتمی شکل دے دی جائے۔‘‘

عالمی تجارتی تنظیم کے لائحہ عمل کے حوالے سے دوحہ میں سن 2001 میں یہ طے پایا تھا کہ سن 2010 ء تک تمام رکن ممالک ایک ایسے ایجنڈے پر متفق ہو جائیں گے، جو آزاد تجارت یا ’فری ٹریڈ‘ کے تحت تمام رکن ممالک کے لئے قابل قبول ہوگا۔

لیکن متعدد بار دی گئی ڈیڈلائنز کے باوجود دوحہ مذاکرات نے حتمی معاہدے کی شکل اختیار نہیں کی۔

کانفرنس میں شریک متعدد وزراء اس تاخیر کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیتے ہیں۔ اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے برازیل کے وزیرخارجہ Celso Amorim کا کہنا تھا:"ایک ہی ملک ہے، جو ہمیں آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔"

بالکل انہی خیالات کا اظہار ایک اور لاطینی امریکی ملک کے سفارت کار نے بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی ایک پوزیشن پر نہیں پہنچ پا رہے ہیں، جس کی وجہ صرف ایک ملک ہے، اور ہاں، میرا مطلب امریکہ سے ہے۔"

دوسری جانب اس تنظیم اور اس کے ایجنڈے کی مخالفت میں ہفتے کے روز جنیوا میں پرتشدد ہنگامے بھی دیکھنے میں آئے۔ مظاہرین نے متعدد بینکوں کے شیشے توڑ دئے اور کچھ گاڑیوں کو بھی نذر آتش کردیا گیا۔ لیکن آج کانفرنس کے پہلے روز مظاہرین صرف پلے کارڈز اٹھائے تنظیم کے ہیڈکوارٹرز کے باہر احتجاج کرتے رہے۔

رپورٹ : عبدالرؤف انجم

ادارت : گوہرنذیر گیلانی