1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی سماجی فورم: شرکاء پرجوش اور پرعزم

30 جنوری 2009

پوری دنیا پر عالمی مالیاتی بحران کے منڈلاتے ہوئے سائوں کے باوجود برازیل میں جاری عالمی سماجی فورم کے شرکاء دنیا کو بدلنے کے لیے پرعزم اور پرجوش ہیں۔

https://p.dw.com/p/GjdK
عالمی سماجی فورم میں جشن کا سماںتصویر: AP
Weltsozialforum Brasilien Demonstration
فورم میں کم از کم ایک لاکھ افراد شریک ہیںتصویر: AP


برازیل کے شہر بیلیم میں جشن کا سماں ہے۔ دنیا بھر سے سرمایہ داری نظام کے مخالف اور عالمگیریت کے خلاف جدوجہد کرنے والے بائیں بازو کی جماعتوں، تنظیموں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بیلیم میں موجود ہے اور عالمگیریت اور سرمایہ داری نظام کے خلاف نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔ منتظمیں کے مطابق کم از کم ایک لاکھ افراد اس اجتماع میں شریک ہیں۔

ایک ایسے موقع پر جب دنیا بھر کو عالمی مالیاتی بحران کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے، عالمی سماجی فورم کے شرکاء کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ سرمایہ داری نظام کو تبدیل کیا جائے۔ ان انقلابی نعروں کے علاوہ جو بات تمام شرکاء میں یکساں نظر آتی ہے وہ امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر باراک اوباما سے امیدیں ہیں۔

Obama Inauguration
پہلے سیاہ فام امریکی صدر باراک اوباما سے عالمی سماجی فورم کے شرکاء نے بہت امیدیں وابستہ کر رکھی ہیںتصویر: AP


عالمی سماجی فورم میں موجود افراد سمجھتے ہیں کہ اپنے پیش رو جارج ڈبلیو بش کے برخلاف باراک اوباما دنیا کو مثبت انداز سے تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اب تک کے ان کے بیانات اور تقریروں سے خوش گوار احساس ہوتا ہے۔

فورم کے شرکاء مالوحیاتی تبدیلی کے مسئلے پر بھی اوباما سے خاصی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اور انہیں امید ہے کہ اوباما زمین کا درجہِ حرارت بڑھانے والی ضرر رساں سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی سے متعلق کیوٹو پروٹوکول پرمثبت کارروائی کریں گے۔

Evo Morales
مارکسی نظریات سے متاثر بولیویا کے صدر ایوو مورالیز۔ پس منظر میں مشہور مارکسی انقلابی رہنما شے گویرا کا عکس نمایاں ہےتصویر: AP


عالمی سماجی فورم گزشتہ کئی برسوں سے دنیا کی طاقت ور معیشتوں کی تنظیم عالمی اقتصادی فورم کے مقابلے میں ایک ایسے متبادل کے طور پر ابھرا ہے جو اقتصادی اور سماجی اعتبار سے ایک عادل اور مساوانہ نظام کی وکالت کرتا ہے۔ عالمی سماجی فورم کے منتظمین سمجھتے ہیں کہ ان کی آواز کمزور سہی مگر ایک متبادل کے طور پر موجود ضرور ہے۔ لاطینی امریکہ کے بائیں بازو کے رہنماؤں، بشمول وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز اور برزایل کے صدر لولا ڈا سیلوا اس طرح کے اجتماعات کو مزید متحرک بنانے میں ایک کردار ادا کر رہے ہیں۔

اس مرتبہ عالمی سماجی فورم کا ایک اہم موضوع مقامی افراد بھی ہیں جو کہ دنیا کی مختلف قوموں کے مقابلے میں سب سے پسماندہ تصوّر کیے جاتے ہیں۔ ان افراد کی ایک بڑی تعداد لاطینی امریکہ میں بھی ہے۔ مگر عالمی سماجی فورم کے شرکاء کو یقین ہے کہ جس طرح بولیویا نے ایک مقامی انڈین باشندے مورالیز کو صدر منتخب کر لیا ہے اور جس طرح باراک اوباما امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے ہیں، تبدیلی کی لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔