1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی سیاسی عدم استحکام نئی حکومت کے قیام میں رکاوٹ

5 جون 2010

اگرچہ امریکہ اگلے سال کے دوران عراق سے مکمل انخلاء کا پختہ ارادہ رکھتا ہے مگر اس جنگ زدہ ملک پر ہمسایہ ملک سیاسی اثر ورسوخ قائم کرنے کی خواہش کے ساتھ نئی حکومت کےقیام پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/Nids
انتخابات کے دوران وزیر اعظم مالکی کا پوسٹرتصویر: AP

عراق کے پڑوسی ممالک نئی حکومت کے حوالے سے عراقی سنی، شیعہ اور کرد نسل کی آبادی پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں دکھائی دیتے ہیں اور یہی عراق میں یک جہتی کے فروغ کی راہ میں بڑی رکاوٹ خیال کیا جاتا ہے۔

امریکی حملے اور صدام حکومت کے خاتمے کے بعد ہونے والے دوسرے پارلیمانی انتخابات کو لگ بھگ تین ماہ ہونے والے ہیں تاہم ابھی تک نئی حکومت کے قیام کی جانب واضح پیشرفت دکھائی نہیں دے رہی۔ موجودہ صورتحال اور امریکی فوج کے انخلاء کےتناظر میں مجموعی سلامتی کی صورتحال مزید خراب ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

Ayad Allawi Iyad Allawi
سیکولر لیڈر ایاد علاویتصویر: AP

ایک معتبر عراقی سیاسی تجزیہ نگار نے اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے کہا ہے کہ بغداد میں نئی حکومت کے قیام کے لئے ’ریل گاڑی‘ سعودی عرب، ایران، ترکی اور شام سے ہوتے ہوئے پہنچے گی۔

سات مارچ کے پارلیمانی انتخابات میں سیکیولر نظریات کے حامل سابق وزیر اعظم ایاد علاوی کو اگرچہ دیگر جماعتوں کے مقابلے میں کسی حد تک برتری حاصل ہوئی تھی تاہم 325 کے پارلیمان میں وہ تنہا حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ موجودہ وزیر اعظم نوری المالکی کا حامی اتحاد ان انتخابات میں دوسرے جبکہ شیعہ مذہبی جماعتوں کا اتحاد تیسرے نمبر پر رہا تھا۔

مبصرین کے مطابق ایران کی خواہش ہے کہ المالکی اور شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر مل کر عراق میں نئی حکومت قائم کریں۔ ان دونوں کے درمیان چار مئی کو اصولی طور پر ایک سمجھوتہ بھی طے پاچکا ہے۔ دوسری طرف ایاد علاوی کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے جو سن 2003ء سے عراق میں شیعہ فرقے کے بڑھتے اثرورسوخ پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

ایاد علاوی خبردار کرچکے ہیں کہ اگر انہیں زیادہ ووٹ ملنے کے باوجود حکومت قائم نہ کرنے دی گئی تو عراق کے طول و عرض میں فرقہ ورانہ فسادات پھوٹ پڑیں گے۔ سعودی شہزادہ ترکی الفیصل نے بھی وزیر اعظم نوری المالکی پر انتخابات کے نتائج کو ’ہائی جیک‘ کرنے اور عراقیوں کی رائے کو مسترد کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ المالکی ان الزامات کے جواب میں کہتے ہیں کہ عراق میں نئی حکومت کا قیام ایک اندرونی معاملہ ہے اور دوسرے ملکوں کو اس میں مداخلت کاکوئی حق حاصل نہیں۔

Staatsbesuch Sarkozy im Irak mit Präsident Jalal Talabani
کرد آبادی کے معروف لیڈر جلال طالبانی، آج کل عراق کے صدر بھی ہیں، تصویر میں وہ فرانسیسی صدر کے ساتھ ہیں: فائل فوٹوتصویر: AP

سنی، شیعہ تقسیم کے ساتھ ساتھ عراق کا ایک اور بڑا داخلی سیاسی مسئلہ کرد نسل کا بھی ہے۔ عراق کے شمال میں کرد نسل کی اکثریت دوسرے ملکوں میں آباد کردوں کے ساتھ ایک آزاد ملک کی دیرینہ خواہش رکھتی ہے۔ ترکی کی سرحد سے ملحق اس خطے کی زیادہ خودمختاری ترکی کو متاثر کرسکتی ہے جو اپنے جنوب مشرقی علاقوں میں سرگرم کرد علیحدگی پسندوں کے خلاف مختلف اوقات میں فوجی کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ ترکی کی خواہش ہے کہ بغداد میں ایسی مضبوط مرکزی حکومت قائم ہو جو کردوں کو ٫کنٹرول‘ کرسکے۔

عراقی سیاسی مبصر گالا رائینی کے بقول عراق میں موجودہ غیر یقینی صورتحال عراقی رہنماوں میں سیاسی بلاغت کی کمی کا نتیجہ ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ واضح ہے کہ عراق کے پڑوسی اس نسلی و فرقہ وارانہ تقسیم کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں ،عراق میں اپنے پسند کی حکومت کو ہر پڑوسی ملک اپنی سلامتی کے لئے انتہائی اہم خیال کرتا ہے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں