1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی وزیر اعظم ’اپنی اوقات میں رہیں‘، ترک صدر

عاطف بلوچ، روئٹرز
12 اکتوبر 2016

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی کے خلاف سخت بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’اپنی اوقات میں رہیں‘۔ ترک فوج کی عراقی سرزمین پر موجودگی کے تناظر میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔

https://p.dw.com/p/2R8gV
Bildkombo Haideral-Abadi / Recep Erdogan
تصویر: picture-alliance/dpa/Getty Images

حیدر العبادی نے اس سے قبل اپنے ایک سخت بیان میں کہا تھا کہ ترک فوج ناکام بغاوت کے بعد دھچکے سے دوچار ضرور ہوئی ہے، مگر ایسی حالت میں بھی نہیں پہنچی کہ وہ ایردوآن کے احکامات مانے۔

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی رکن ریاست ترکی عراق اور شام کے ساتھ قریب 12 سو کلومیٹر طویل سرحد کی حامل ہے اور اسے ان دونوں ممالک کی سرحدوں پر شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے خطرات لاحق ہیں۔ ترک حکومت کو خدشات ہیں کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش  کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی اقدامات ترکی کے لیے نئے خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ جولائی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد اگست میں ترک فوجی دستوں کو شامی سرزمین پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور کرد ملیشیا کے خلاف کارروائیوں کے لیے بھیجا جا چکا ہے، جب کہ عراقی شہر موصل کے قریب بھی ترک فوجی دستے تعینات ہیں اور اسی تناظر میں بغداد اور انقرہ حکومتوں کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ جاری ہے۔

صدر ایردوآن نے واضح کیا ہے کہ وہ عراق میں بھی شام ہی کے طرز کی فوجی کارروائیوں کا آغاز کر سکتے ہیں تاکہ موصل شہر کا قبضہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے چھڑایا جا سکے۔ ایردوآن نے استنبول میں مسلم رہنماؤں سے اپنے خطاب کے دوران کہا، ’’ہم عراق میں فوجی کارروائی میں حصہ لیں گے، یعنی جو آپریشن موصل میں شروع ہونے والا ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہو گا، جیسا ہم شام میں کر رہے ہیں۔‘‘

Türkei Armee Soldaten Symbolbild
دو ہزار ترک فوجی عراق میں تعینات ہیںتصویر: picture-alliance/AA/V. Gurgah

ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنے اس خطاب میں ایردوآن کا کہنا تھا، ’’کیا ترکی اپنے قریب موجود ایسے خطرات سے نجات کے لیے مداخلت نہیں کر سکتا؟ ہم یہ قبول نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے ہمیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں اور نہ ہم کسی سے اجازت لیں گے۔‘‘

ترک فوجی دستے شمالی عراقی شہر بشیقہ میں موجود ہیں، جن کا مقصد مقامی سنی شہریوں اور کردوں کی پیش مرگہ فورسز کو تربیت فراہم کرنا ہے، تاکہ وہ موصل میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف کسی ممکنہ فوجی کارروائی میں شریک ہو سکیں۔

دوسری جانب امریکی حکومت نے کہا ہے کہ عراق میں غیرملکی فورسز صرف بغداد حکومت کی اجازت سے ہی تعینات کی جائیں اور انہیں ہر حال میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف امریکی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد کا حصہ ہونا چاہیے۔

ترک پارلیمان نے دو ہفتے قبل عراق میں موجود ترک فوجی دستوں کی مدت میں توسیع کی منظوری دی تھی۔ شمال عراق میں موجود یہ دو ہزار ترک فوجی اب مزید ایک برس تک تعینات رہیں گے۔ عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے ترک پارلیمان میں اس معاملے پر ووٹنگ پر شدید احتجاج کیا تھا اور کہا تھا کہ ترکی ’علاقائی جنگ‘ کا راستہ کھول رہا ہے۔

اسی تناظر میں ایردوآن نے کہا، ’’عراقی وزیر اعظم میری بے عزتی کر رہے ہیں، حالاں کہ انہیں اپنی اوقات معلوم ہونا چاہیے۔‘‘