1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی کمیونسٹ پارٹی ویمن رائٹس اور سیکولر سیاست کے حق میں

1 مئی 2022

عراقی کمیونسٹ پارٹی کا سر‌خ ستارہ بظاہر دھندلا چکا ہے۔ ملکی حالات کے تناظر میں اس نے خواتین کے حقوق اور سیکولر سیاست کی وکالت شروع کر دی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ معاملے سرِ دست اس ملک میں قابلِ عمل نہیں۔

https://p.dw.com/p/4Ad3u
Irak Demonstration auf dem Tahrir Square
تصویر: AFP

عراق کی قدیم ترین سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی اب بھی فعال ہے۔ اس کی بنیاد سن 1934 میں رکھی گئی تھی۔ اس کے مرکزی نشانات میں ہتھوڑا اور درانتی شامل ہیں لیکن امن کا نشان فاختہ بھی ان میں شامل ہے۔ اس کے بنیادی ممبران کی تعداد آج کل محض چند ہزار ہے اور اس کا کوئی ایک بھی رکن ملکی پارلیمان کا حصہ نہیں ہے۔

امریکا اور عراق: ایک دور ختم یا نئی شروعات

یہ پارٹی آج اتوار یکم مئی کو عالمی یوم مزدور منا رہی ہے۔ اس نے گزشتہ برس کے پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ اس لیے کیا تھا کہ اس کے بقول یہ الیکشن بدعنوان نسلی و مذہبی و فرقہ وارانہ عناصر کے درمیان اقتدار کو تقسیم کرنے کے مترادف تھا۔ پارٹی کے مطابق یہ بدعنوان حکومتی عمل سن 2003 میں شروع ہونے والی امریکی جنگ اور قبضے کا نتیجہ ہے۔

Irak Kommunistische Partei erinnert an Gründung der Republik
چودہ جولائی سن 2009 کو عراقی کمیونسٹ پارٹی کے جلوس میں جنرل عبدل کریم قاسم کی تصاویر لہرائی گئی تھیںتصویر: picture-alliance/dpa

عراق کا سیاسی منظر نامہ

مشرقِ وسطیٰ کے اس ملک میں صدام حسین کی آمریت اور امریکی فوج کشی، جنگ و قبضے کے بعد سے مضبوط حکومتی عمل کا فقدان ہے۔ انتخابات کا سلسلہ جاری ہے لیکن کوئی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کر پا رہی اور مذہبی سیاسی جماعتیں ملکی سیاست پر چھائی ہوئی ہیں۔

بڑی سیاسی جماعتیں شیعہ اور سنی عقائد کے حامل سیاستدانوں کے کنٹرول میں ہیں اور بقیہ چھوٹی سیاسی پارٹیاں نسلی و مذہبی اقلیتوں پر مشتمل ہیں۔ ان گروپوں اور اقلیتوں میں مسیحی اور ترکمان خاص طور پر نمایاں ہیں۔

عراقی کمیونسٹ پارٹی ملکی سیاسی نظام کو مذہب سے آزاد کرانے کی وکالت کرتی ہے۔ ایسی سوچ کی عراق میں بظاہر کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی کیوں کہ مذہب اور سیاست کو علیحدہ کرنا فی الحال بہت ہی مشکل ہو چکا ہے۔

مسجد اور ریاست کی علیحدگی

مڈل ایسٹ انیشیئیٹو نامی تھنک ٹینک سے وابستہ سیاسی مبصرہ مارسین الشماری کا کہنا ہے کہ عراق میں مسجد یعنی مذہب کو ریاست سے علیحدہ کرنے کی سوچ بہت کمزور ہے۔ اس وقت ملکی سیاسی قوت کا مرکز و محور اکثریتی شیعہ آبادی کے گرد قائم ہے اور اس میں ایک جانب شعلہ بیان شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر ہیں اور دوسری جانب ان کے حریف ایران نواز گروپ اطار التنسیق العراق (Coordination Framework) ہیں۔

Wahlen in Irak Plakat
پندرہ دسمبر سن 2004 کو بغداد میں کمیونسٹ پارٹی کا ورکر پوسٹر لگاتے ہوئے، پوسٹر میں کمیونسٹ پارتی کے لیڈر مجید حمید کی تصویر دیکھی جا سکتی ہےتصویر: AP

عراق کی ایک خاتون سرکاری ملازمہ زینب عزیز کا کہنا ہے کہ ان مذہبی سیاسی جماعتوں کی وجہ سے خواتین کی زندگی مشکل تر ہو چکی ہے اور نوجوان شدید پریشان ہیں کیونکہ وہ آزادی کے متلاشی ہیں۔

ایسے حالات میں عراقی کمیونسٹ پارٹی وہ واحد سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے جس نے واشگاف انداز میں خواتین کے حقوق کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

عراقی کمیونسٹ پارٹی

سیاسی انتشار سے متاثرہ ملک عراق میں کمیونسٹ پاڑی بظاہر مرکزی سیاسی دھارے سے باہر دکھائی دیتی ہے اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے غلبے، عدم اتفاق اور معاشرتی تقسیم نے اس پارٹی کو کونے میں دھکیل رکھا ہے۔

عراقی سیاسی بحران، صدارتی الیکشن غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی

ماضی میں یہ ایک مقبول سیاسی پارٹی رہ چکی ہے۔ کینیڈا کی کیلگری یونیورسٹی سے وابستہ پولیٹیکل سائنٹسٹ طارق اسمعٰیل کا کہنا ہے کہ پچھلی صدی میں سن انیس سو چالیس اور پچاس کی دہائیوں میں اس سیاسی جماعت نے سماجی انصاف کے لیے امپیریلزم مخالف سوچ اپنا کر حقوق سے محروم افراد کو ایک اجتماعی آواز دے دی تھی۔

Irak Proteste in Bagdad
جنوری سن 2020 میں عراق میں پرتشدد مظاہروں نے ملک میں عدم استحکام پیدا کر دیا تھاتصویر: picture-alliance/AA/M. Sudani

اس سیاسی جماعت کو سن انیس سو ستر کی دہائی میں ڈکٹیٹر صدام حسین کے دور میں شدید حکومتی جبر کا سامنا رہا لیکن اس آمر کے زوال کے بعد اس پارٹی میں زندگی پھر سے بیدار ہو گئی تھی۔

آج کل عراقی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ اکہتر سالہ رائد فہمی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی ملک میں رکنیت سازی شروع کرے گی اور سماجی انصاف کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کے حق میں آواز بھی بلند کرتی رہے گی۔ کمیونسٹ پارٹی ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کی حامی ہے اور وہ ان کی معاشی آزادی کی بھی حمایت کرتی ہے۔ رائد فہمی کے مطابق موجودہ حالات میں خواتین کا فعال کردار مشکل دکھائی دیتا ہے لیکن اس سمت میں پیش رفت ضروری ہے۔

ع ح / م م (اے ایف پی)