1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں تشدد کے واقعات جاری ہیں

20 اکتوبر 2006

آج عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایک مارٹر حملے میں پانچ فلسطینی پناہ گزین ہلاک جبکہ ایک درجن کے قریب دیگر افراد زخمی ہو گئے۔ عراق کے دفاعی حکام کے مطابق کئی مارٹر گولے بغداد کے مشرق میں بالادیات ضلع میں واقع ایک فلسطینی کیمپ پر جا لگے۔ واضح رہے کہ مسلح مزاحمت کاروں نے فلسطینیوں سے مطالبہ کیا تھا کہ تمام پناہ گزینوں کو اپنے وطن واپس لوٹ جانا چاہئے۔ اقوام متحد ہ کی پناہ گزینوں سے متعلق ادارے UNHCR نے اس حملے پر تشویش

https://p.dw.com/p/DYIQ
شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر
شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدرتصویر: AP

�ا اظہار کیا ہے۔ عراق میں شیعہ سنی کشیدگی اور تشدد کے مسلسل واقعات سے یوں لگتا ہے کہ وہاں حالات تیزی سے خانہ جنگی کی شکل اختیار کر تے جا رہے ہیں۔

آج جمعہ کے روز ایک اور واقعے میں ایک ہزا ر سے زیادہ شیعہ مظاہرین نے بغداد، بصرہ اور نجف میں اسرائیل کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ یروشلم فلسطینیوں کے حوالے کیا جانا چاہیے۔

اسی دوران پتہ چلا ہے کہ شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کی ملیشیا نے عراق کے جنوب میں واقع عمارہ شہر پر پھر سے کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور وہاں پولیس اور مقتدیٰ الصدر کے سینکڑوں مسلح حامیوں کے درمیان تصادم میں کل جمعرات سے اب تک 18 افراد ہلاک اور تقریباً 100 زخمی ہو چکے ہیں۔ حالات میں یہ پیش رفت امریکی فوجیوں کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے اور وہ اِس شہر کی صورت حال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ برطانوی افواج اگست میں اِس شہر کی سلامتی کے معاملات عراقی سیکیورٹی فورسز کے حوالے کرتے ہوئے یہاں سے نکل گئی تھیں۔ دریں اثناء عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی نے ہنگامی طور پر ایک وفد عمارہ روانہ کیا ہے جس میں سلامتی کے شعبے کے وزیر کے علاوہ دوسرے عہدےداران بھی شامل تھے۔

اسی دوران امریکی صدر جورج ڈبلیو بش نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عراق میں امریکہ کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔ بش نے کہا، وہ امریکی فوجی جرنیلوں کے ساتھ صلاح و مشورہ کریں گے کہ آیا عراق میں اب تک کی حکمتِ عملی میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے امریکی فوج کے ایک ترجمان نے بھی یہ تسلیم کیا تھا کہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں باغیوں کے حملوں پر پوری طرح سے قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

دریں اثناء خبر رساں ادارے AFP نے مشہور فرانسیسی اخبار لے موند کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ عراق کی حکومت نے طبی حکام کو ہلاک شُدگان کے حوالے سے اعداد و شمار منظرِ عام پر نہ لانے کی ہدایات دے رکھی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد سے اب تک مسلسل جاری پُر تشدد واقعات کی وجہ سے نو لاکھ سے بھی زیادہ عراقی باشندے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔