1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق کی اربوں ڈالر کی تیل کی آمدنی کہاں گئی؟

امتیاز احمد8 اگست 2008

عراق کو معدنی تیل سے اربوں ڈالر کی آمدنی ملتی ہے لیکن سیاسی اختلافات، بیوروکریسی کی نا اہلی اور امن و امان کے فُقدان کے باعث ملک کا اقتصادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اور عوام ضرورت کی تقریباً ہر شَے کے لئے ترس گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/EtAk
تصویر: picture-alliance/dpa

صدام حسین کی حکومت ختم ہوئے پانچ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن عراق کی حالت بہتر ہونے کی بجائے پہلے سے بھی زیادہ بگڑ چکی ہے۔ عراقی سرزمین سے نکلنے والا معدنی تیل پوری دُنیا میں جاتا ہے لیکن عراقیوں کو یہی تیل قطاروں میں کھڑے ہوکر خریدنا پڑتا ہے۔ بچے دن رات گرمی میں تڑپتے ہیں۔ بجلی چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں آتی، پینے کا پانی آلودہ ہے اور یوں صحت کے لئے نقصان دہ ہے جبکہ سڑکیں تباہ حال ہیں۔ بغداد کی رہائشی تین بچوں کی ماں جمیلہ بتاتی ہیں:’’گزشتہ چھ برسوں سے خالی وعدے ہی کئے جا رہے ہیں۔ عراق تیل اور دولت سے مالا مال ہے لیکن پھر بھی یہاں ضرورت کی ایک بھی چیز میسر نہیں ہے۔‘‘

Ölraffinerie im Irak
تصویر: AP

عراق دنیا میں تیل پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے ۔ دنیا میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہےاور یوں عراق کے پاس پیسے کی بھی کمی نہیں ۔ عراقی نائب صدر طارِق الہاشمی کا کہنا تھا: ’’عراق قدرتی وسائل سے مالا مال اور خوشحال ملک ہے۔ یہ ملک غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے ایک بڑی منڈی ہے اور اُنہیں چاہیے کہ وہ یہاں سرمایہ کاری کریں۔‘‘

عراق آخر تیل سے حاصل ہونے والی اتنی بڑی رقوم کا کرتا کیا ہےِ؟ کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ گزشتہ چار برسوں میں کمائے جانے والے 50 ارب ڈالرآخر کہاں گئے۔ یہ رقم عراق کی ترقی پر بہرحال خرچ نہیں ہو رہی اور ملک میں تعمیرِ نو کا کہیں نام و نشان بھی نظر نہیں آتا۔ ناتجربہ کار سرکاری ملازمین اور ملک میں بڑھتی ہوئی پر تشدد کاروائیاں بھی ملکی ترقی اور حالات کی بہتری میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ عملی اقدامات کی بجائے عراقی حکومت صرف ہوائی قلعے تعمیر کرنے میں مصروف ہے۔ بغداد کی تعمیرِ نو کے لئے حال ہی میں پیش کئے جانے والے ایک ماسٹرپلا‍ن میں کئی مہنگے ہوٹلوں کے علاوہ شاندار شاپنگ سینٹرز اور دیگر عظیم الشان عمارات تعمیر کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔

Wahlen in Irak vor einem Wahllokal
تصویر: AP

تاہم عراقی وزیراعظم نورالمالکی کی خواہش ہے کہ اس منصوبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کریں۔ اس سلسلے میں جرمن وزیراقتصادیات کا کہنا ہے:’’جرمنوں کےلئے عراق میں سرمایہ کاری کے لئے بہت زیادہ مواقع ہیں۔ عراق میں حالات دن بدن بہتر ہو رہے ہیں اور جمہوریت ترقی کر رہی ہے۔‘‘

لیکن یہ ساری باتیں صرف کہنے کی حد تک ہی درست ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک بھی جرمن حکومت نے اپنے شہریوں کو عراق نہ جانے کی ہدایات دے رکھی ہیں۔ تاہم امن و امان کی خراب صورت حال کے ساتھ ساتھ عراق میں بڑے پیمانے پر موجود بدعنوانی کی وجہ سے بھی سرمایہ کار عراق کا رُخ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔