1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب خطے میں تبدیلیاں: یورپی یونین کے اندر اختلافات

15 ستمبر 2011

اس سے پہلے کہ انقلابات کی صورت میں عرب ملکوں میں آنے والی بہار خزاں میں تبدیل ہو، یورپی ممالک اس خطے سے متعلق کوئی مشترکہ حکمت عملی وضع کرنا چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/12ZmO
تصویر: picture alliance/dpa

حالیہ چند مہینوں کے دوران کئی بڑے یورپی ممالک اس خطے سے متعلق کوئی مشترکہ پالیسی اپنانے میں ناکام رہے ہیں۔ گزشتہ روز یورپی پارلیمنٹ میں ہونے والے اجلاس میں تین نکات سر فہرست تھے۔ لیبیا کا غیر یقینی مستقبل، شام  میں  اسد حکومت کے خلاف جاری مظاہرے اور اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے فلسطینی درخواست کا اجراء۔

اس اجلاس میں یورپی عوام کے نمائندے Dowgielewicz کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مغربی ممالک کئی مہینوں سے قذ‌افی کے بعد کے لیبیا اور اس کے مستقبل کے بارے میں مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں، جبکہ نیٹو کی فضائی کارروائیاں ابھی تک وہاں جاری ہیں اور معمر قذافی کو بھی ابھی تک نہیں پکڑا جا سکا۔

لبرل رکن پارلیمان Kristiina Ojuland کا کہنا تھا کہ لیبیا کے عوام کی مدد کے لیے تیل اور گیس کی پیداوار دوبارہ شروع کی جانی چاہیے۔

NO FLASH Sitzung EU-Parlament
گزشتہ روز ہونے والے اجلاس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ فلسطین کے معاملے میں مشترکہ یورپی موقف کا سامنے آنا مشکل ہےتصویر: picture-alliance/ dpa/dpaweb

لیبیا کی معیشت کو فروغ دینے کے لیے یورپی یونین نے حال ہی میں توانائی اور مالیات کے شعبوں میں کئی کمپنیوں کے منجمد فنڈز جاری کر دیے تھے۔  کل کے اجلاس میں دوسرا اہم موضوع اسد حکومت کے خلاف کئی مہینوں سے جاری احتجاجی مظاہرے تھے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ابھی تک ان مظاہروں میں چھبیس سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پولینڈ کے وزیر Mikolaj Dowgielewicz کاکہنا تھا، ’’اسد حکومت کے ساتھ اب شام کا مستقبل تاریک ہے اور ہم یہ سوچتے ہیں کہ صدر اسد کو اب مستعفی ہو جانا چاہیے۔‘‘

اسد حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے یورپی یونین پہلے ہی سفری اور تجارتی پابندیاں کر چکی ہے۔ تاہم ابھی تک ان پابندیوں کا اسد حکومت پر کوئی بھی اثر نہیں ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب مزید پابندیاں عائد کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔

آئندہ چند ہفتوں میں فلسطینی حکومت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک درخواست دینا چاہتی ہے تاکہ فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کروایا جا سکے۔ یورپی یونین کے کچھ رکن ممالک اس منصوبے کی حمایت کرتے ہیں جبکہ جرمنی سمیت کئی دیگر ممالک اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

بیلجیئم کی سوشل ڈیمو کریٹ رکن Veronique de Keyser کا کہنا تھا، ’’عرب دنیا کے معاملے میں یورپ کی ساکھ داؤ پر لگی ہے۔ ہم لیبیا، تیونس، مصر اور شام کے عوامی انقلابات کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ بھی تو فلسطینیوں کا عوامی انقلاب ہے‘‘۔

گزشتہ روز ہونے والے اجلاس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ فلسطین کے معاملے میں مشترکہ یورپی موقف کا سامنے آنا مشکل ہے۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں