1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب دنیا میں عوامی بغاوت کی لہر کے چھ ماہ

16 جون 2011

تیونس میں زین العابدین بن علی اور مصر میں حُسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کا سبب بننے والے عوامی مظاہروں کے آغاز کو چھ ماہ ہو گئے ہیں۔ ’عرب اسپرنگ‘ کہلانے والی بغاوت کی یہ لہر عرب ممالک میں جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/11c0C
تیونس میں عوامی مظاہرے بڑی سیاسی تبدیلی کا باعث بنےتصویر: picture alliance/dpa

عرب ممالک میں طویل عرصے سے بر سر اقتدار حکمرانوں کی سیاسی اجارہ داری کے خلاف اور جمہوریت کے آرزو مند عوام کی طرف سے شروع کی گئی بغاوت کی یہ مہم بڑے تنازعات اور اقتصادی مصائب کا سبب بنی ہے۔ قاہرہ میں قائم ایک امریکی یونیورسٹی کی سیاسیات کی پروفیسر رباب المہدی کہتی ہیں ’ہم اس وقت ایک تنگ رستے سے گزر رہے ہیں‘۔ 17 دسمبر کو تیونس کی سڑک پر دکان لگانے والے ایک باشندے کی طرف سے شروع کردہ قربانی دراصل رنگ لائی اور اُس نے بڑے عوامی مظاہروں کی شکل اختیار کرلی، جو اتنے طاقتور ثابت ہوئے کہ بن علی کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنے۔

بغاوت کی آگ کے شعلے سب سے زیادہ آبادی والے عرب ملک مصر کی طرف بڑھے، جہاں التحریر اسکوائر پر لگاتار تین ہفتوں تک 24 گھنٹے جاری رہنے والے احتجاجی مظاہروں کا نتیجہ عشروں سے چلے آ رہے حسنی مبارک کے دورِ صدارت کے خاتمے کے صورت میں نکلا۔

Dossierbild Ägypten Proteste gegen Mubarak Regierung Kairo Nr. 3
حسنی مبارک اپنے ملک میں بہت غیر مقبول ہو گئے تھےتصویر: AP

عرب دنیا میں حکومتوں کے خلاف عوامی مظاہروں کے جاری رہنے کے باوجود لیبیا، شام اور بحرین کے حکمران اپنے اپنے مناصب پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان سے دستبردار ہونے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔ یہ رہنما حکومت مخالف قوتوں کو کُچلنے کے لیے بہیمانہ طریقہ کار بروئے کار لا رہے ہیں۔

سیاسی علوم کی پروفیسر رباب المہدی کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر نکل کر حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی کوششوں کا جو نتیجہ مصر اور تیونس میں نکلا ہے، وہ لیبیا، شام اور یمن میں مشکل نظرآ رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ پوری عرب دنیا کے عوام میں سیاسی تبدیلیوں کی خواہش تو یکساں پائی جاتی ہے، تاہم اس خطے کے تنوع کی وجہ سے ’عرب اسپرنگ‘ نامی مہم کے اثرات تمام ملکوں میں ایک جیسے نہیں نظر آ رہے۔

اسی قسم کے خیالات کا اظہار پیرس میں قائم ادارےObservatory of Arab Countries کے ایک اعلیٰ اہلکار Antoine Basbous نے بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں،’کبھی بھی کہیں بھی دو تحریکیں بالکل ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ لیبیا میں قذافی حکومت کا تسلسل غیر یقینی ہے۔ تاہم یہ کب ختم ہوتی ہے، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ شام کے صدر بشار الاسد تاہم اپنا دفاع کرنے کی ممکنہ کوشش کر رہے ہیں اور اُن کے پاس وسائل بھی موجود ہیں۔ یمن خطے کا غریب ترین ملک ہے، اس کی صورتحال صومالیہ جیسی ہو سکتی ہے جہاں کی حکومت پہلے ہی سے بہت کمزور ہے۔

Syrien Demonstrationen
شام میں بڑے عوامی مظاہروں کے باوجود کسی سیاسی تبدیلی کی امید نظر نہیں آرہیتصویر: dapd

اُدھر سعودی عرب کی سُنی بادشاہت کی مکمل حمایت میں کام کرنے والی بحرین کی حکومت اپنے ہاں جاری جمہوری تحریک کو کچلنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اس چھوٹے سے مگراسٹریٹیجیک اعتبار سے گلف کے خطے میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ملک بحرین میں آباد شیعہ اکثریت کو شکایت ہے کہ اُسے معاشرے میں الگ تھلگ کر کے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں