1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب دنیا کا واحد یہودی عجائب گھر

11 فروری 2011

مراکش کے وسیع و عریض شہر کاسابلانکا میں ایک سفید عمارت ایسی بھی ہے، جس میں جمع قیمتی نوادرات کا بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ یہ عمارت پوری عرب دنیا کا واحد یہودی عجائب گھر ہے۔

https://p.dw.com/p/10FVF
مراکش کا قومی پرچم

مراکش میں مغربی صحارا کے قصبے الداخلہ کے ایک ہائی اسکول کے ایک طالب علم نے ابھی حال ہی میں اپنے ہم جماعت نوجوانوں کے ساتھ جب کاسا بلانکا میں اس عجائب گھر کا دورہ کیا، تو وہاں سے رخصتی سے قبل اس نے بڑی معصومیت سے یہ اعتراف بھی کیا کہ اسے تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ایسے یہودی بھی ہوتے ہیں، جن کا تعلق نسلی یا آبائی طور پر مراکش سے ہوتا ہے۔

احمد نامی اس نوجوان کے مطابق اسے اس عجائب گھر کے دورے کے بعد پتہ چلا کہ مراکش میں تو ماضی میں فیض اور کئی دوسرے شہروں میں بھی بہت بڑی تعداد میں یہودی آباد تھے۔ 1997 میں قائم کیے جانے والے اس عجائب گھر میں بہت سے قیمتی نوادرات اور تاریخی نمونے رکھے گئے ہیں، جن میں پرانے ملبوسات، اوزار اور ایک یہودی سنار کی دکان میں استعمال ہونے والی اشیاء بھی شامل ہیں۔

Karte der spanischen Exklaven Ceuta und Melilla in Marokko Karte: DW
تقریباﹰ ستّر برس قبل مراکش میں یہودیوں کی آبادی ڈھائی لاکھ تھی

مراکش میں یہودی آبادی کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے اور یہ عجائب گھر مختلف صورتوں میں اسی تاریخ کے مختلف لیکن بہت متنوع ادوار کا احاطہ کرتا ہے۔ اس عجائب گھر کی نگران خاتون کا نام Zhor Rehihil ہے، جو ایک مسلمان ہیں اور ایک سرکاری ملازم بھی۔ اس خاتون اہلکار نے فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ یہودیت سے متعلق یہ عجائب گھر پوری عرب دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد میوزیم ہے اور آج بھی مراکش میں قریب پانچ ہزار یہودی آباد ہیں، جن میں سے دو ہزار کے قریب صرف کاسابلانکا میں رہتے ہیں۔

آج سے قریب چودہ برس قبل یہ عجائب گھر کیوں قائم کیا گیا تھا، اس بارے میں ظہور کہتی ہیں کہ مقصد عام شہریوں، خاص کر نوجوانوں کو یہ بتانا تھا کہ مراکش میں دوسرے مذاہب اور نسلوں کے لوگ بھی رہتے ہیں اور وہ بھی مراکشی ہیں۔ اس میوزیم کے قیام سے لے کر آج تک اس کے ڈائریکٹر کے فرائض انجام دینے والے سائمن لیوی کی عمر اس وقت 76 برس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مراکش سے یہودی یکدم لاپتہ نہیں ہوئے تھے، بلکہ ان کی بہت سی تاریخی باقیات بھی موجود ہیں۔

Symbolbild Islam Christentum Judentum
عرب ریاست مراکش میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور مسیحی اور یہودی اقلیت میںتصویر: DW

1940 کے عشرے کے آخری سالوں تک مراکش میں یہودیوں کی مجموعی تعداد قریب ڈھائی لاکھ بنتی تھی، جو اس شمالی افریقی ملک کی کل آبادی کا قریب دس فیصد تھی۔ پھر اس عرب ریاست میں یہودیوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی دیکھنے میں آئی لیکن مراکش میں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں یہودی رہتے ہیں اور یہ عجائب گھر ان کے ماضی اور حال کی عکاسی کرتا ہے۔

مراکش میں مقامی یہودی آبادی کے قومی زندگی کا حصہ ہونے کے ثبوت ابھی تک جگہ جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہاں متعدد بڑے شہروں میں یہودی عبادت خانے بھی ہیں، جن میں سے کاسا بلانکا کا synagogue تو کافی مشہور ہے۔ اس کے علاوہ وہاں یہودیوں کے دو اسکول بھی ہیں، جن کے طلباء میں یہودیوں کے علاوہ بہت سے مسلمان بچے بھی شامل ہیں۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید