1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب دنیا کے نوجوانوں کی اکثریت داعش کے خلاف

امجد علی13 جنوری 2016

ایک تازہ سروے کے مطابق عرب خطّے میں نوجوان مسلمانوں کی اکثریت نام نہاد جہادی ملیشیا ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا پھر دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں کی کارروائیوں کی مذمت کرتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hcgj
Marsch gegen Klimawandel in Doha
عرب دنیا کے زیادہ تر نوجوانوں کے مطابق آئی ایس (داعش) اور القاعدہ جیسی تنظیمیں اسلام کی اصل تعلیمات کو بگاڑ کر پیش کر رہی ہیںتصویر: Anne Allmeling

جیسا کہ نیوز ایجنسی اے ایف پی نے ابوظہبی سے جاری ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے، یہ سروے ’زوگبی ریسرچ سروسز‘ نامی ادارے کی جانب سے بدھ کے روز شائع کیا گیا ہے۔ شمالی افریقہ اور عرب خلیجی ملکوں میں کیے گئے اس سروے میں زیادہ تر شرکاء نے اس نقطہٴ نظر کا اظہار کیا کہ بڑے پیمانے پر پائی جانے والی کرپشن اور عوام کا استحصال کرنے والی غیر نمائندہ حکومتیں ان نام نہاد ’جہادیوں‘ کی مقبولیت کا بڑا سبب ہیں۔

دیگر کا کہنا یہ تھا کہ انتہا پسند گروپوں کو اس وجہ سے فروغ حاصل ہو رہا ہے کیوں کہ مسلمان ملکوں میں تعلیم کے شعبے کی حالت پست ہے اور انتہا پسندانہ مذہبی رجحانات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس سروے کا اجراء کرتے ہوئے زوگبی فرم کے سربراہ جیمز زوگبی نے بتایا، ’’زیادہ تر ملکوں میں اکثریت کا کہنا یہ تھا کہ مذہب میں اصلاح کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مذہبی موضوعات پر تبادلہٴ خیال زیادہ سے زیادہ دورِ حاضر کے حالات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔‘‘

سروے کے مطابق شرکاء کی تقریباً تین چوتھائی تعداد کا کہنا یہ تھا کہ کہ آئی ایس (داعش) اور القاعدہ جیسی تنظیمیں اسلام کی اصل تعلیمات کو بگاڑ کر پیش کر رہی ہیں یا اُن کی پیش کردہ تشریح سرے سے غلط ہے۔

بتایا گیا ہے کہ مراکش اور متحدہ عرب امارات میں تو نوّے فیصد سے زیادہ نوجوان شرکاء نے نام نہاد ’جہادی‘ گروپوں کو اسلام کی مکمل طور پر مسخ شُدہ شکل قرار دیا۔ مصر میں اس نقطہٴ نظر کا اظہار کرنے والے نوجوان مرد و زن کی شرح 83 فیصد جبکہ بحرین اور اردن میں 60 فیصد سے زیادہ رہی۔

Symbolbild Islamischer Staat und Social Media
’بڑے پیمانے پر پائی جانے والی کرپشن اور عوام کا استحصال کرنے والی غیر نمائندہ حکومتیں ان نام نہاد ’جہادیوں‘ کی مقبولیت کا بڑا سبب ہیں‘تصویر: picture-alliance/AP

اس کے برعکس فلسطینی علاقوں میں پندرہ فیصد، اردن میں تیرہ فیصد اور سعودی عرب میں دَس فیصد نے اس موقف کا اظہار کیا کہ ’جہادیوں‘ کی کارروائیوں کو ہرگز اسلام کی بگڑی ہوئی شکل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس سروے کے لیے مراکش، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، اردن اور فلسطینی علاقوں میں مجموعی طور پر 5374 مسلمان نوجوانوں کی رائے لی گئی۔