1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب ملکوں کے لیے ایران بھی داعش جتنا بڑا خطرہ: بحرین

مقبول ملک31 اکتوبر 2015

خلیجی ریاست بحرین کے وزیر خارجہ شیخ خالد بن احمد الخلیفہ کے بقول عرب ریاستوں میں تخریبی سرگرمیوں کی تائید و حمایت کے باعث اس خطے کے لیے ایران بھی اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا کہ دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش۔

https://p.dw.com/p/1GxYE
Protest Luftangriff Saudiarabien Sanaa Houthi
یمن میں ایران نواز حوثی شیعہ ملیشیا کے مسلح ارکانتصویر: Reuters/K. Abdullah

مناما سے ہفتہ اکتیس اکتوبر کے روز موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق بحرین کے وزیر خارجہ نے یہ بات آج ملکی دارالحکومت میں ہونے والی ایک علاقائی سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ شیخ خالد الخلیفہ کے مطابق خلیج کی عرب ریاستوں میں ایران کی طرف سے تخریبی کارروائیوں کی جو حمایت کی جاتی ہے، وہ خطے کے لیے اتنا ہی شدید خطرہ ہے، جتنا کہ شام اور عراق میں وسیع تر علاقوں پر قابض جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ کی سرگرمیاں۔

روئٹرز کے مطابق بحرین کے وزیر خارجہ نے کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’یہ (ایرانی) اقدامات اس خطرے سے کم شدت اور نوعیت کے نہیں ہیں، جو داعش کی وجہ سے پیدا ہو چکا ہے۔‘‘ شیخ خالد الخلیفہ نے اپنے خطاب میں ایران پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ بحرین میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ کا مرتکب ہو رہا ہے۔

مناما میں اس کانفرنس سے اپنے خطاب میں بحرینی وزیر خارجہ نے یمنی تنازعے کے بارے میں کہا، ’’یمن میں حوثی شیعہ ملیشیا کا کوئی مستقبل صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ خود کو غیر مسلح کرتے ہوئے تنازعے کے سیاسی حل کی تلاش کے عمل کا حصہ بنے۔‘‘

یمن میں ایران نواز حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف خلیج کی عرب ریاستیں سعودی عرب کی قیادت میں ایک عسکری اتحاد کی صورت اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خلیجی عرب ریاستوں کا الزام ہے کہ حوثی شیعہ یمن میں ایران کی ’پراکسی جنگ‘ لڑ رہے ہیں۔ اس الزام کی خود حوثیوں کے علاوہ تہران کی طرف سے بھی تردید کی جاتی ہے۔

Außenminister Saudi-Arabien al-Jubeir in Kairo
یمنی تنازعہ اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو رہا ہے، سعودی وزیر خارجہتصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi

سعودی عرب کی امید

روئٹرز کے مطابق مناما کی اسی سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آج سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ تہران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدہ طے پا جانے کے بعد اب آئندہ جب تہران پر عائد پابندیاں اٹھا لی جائیں گی، تو سعودی عرب یہ امید کرتا ہے کہ پھر تہران خود کو حاصل ہونے والے نئے مالی وسائل کو ’جارحانہ پالیسیوں‘ کے لیے استعمال کرنے کی بجائے اپنی اقتصادی ترقی کے لیے بروئے کار لائے گا۔

عادل الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی عرب کے ہمسایہ ملک یمن میں جو تنازعہ پایا جاتا ہے، اس میں ریاض حکومت ان فورسز کی حمایت کر رہی ہے، جو ایران نواز حوثیوں کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ الجبیر نے کہا کہ سعودی قیادت میں عسکری اتحاد کی فوجی کامیابیوں کے باعث یمن کا تنازعہ اب اپنے ’آخری مرحلے‘ میں داخل ہو رہا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں