1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عظیم دریائے سندھ: حیرت اور عبرت کے مناظر

6 جولائی 2010

دُنیا کے طویل ترین دریاؤں میں شمار ہونے والا دریائے سندھ ایک زمانے میں لاکھوں ہیکٹر رقبے کو سیراب کرتا تھا۔ آج کا دریائے سندھ اپنے اصل حجم کا دس فیصد بھی نہیں رہا اور حیرت اور عبرت کا منظر پیش کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/OBKl
دریائے سندھ میں پانی کی مسلسل کمیتصویر: AP

دریا میں پانی کم ہوجانے کی بے شمار وجوہات میں اِس پر بننے والے ڈیم اور زراعت کے لئے پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال بھی شامل ہیں۔ جنگلات کی تیز رفتار کٹائی، صنعتی آلودگی اور زمینی درجہء حرارت میں اضافہ انڈس ڈیلٹا کے علاقے میں نباتات اور حیوانات کے ساتھ ساتھ وہاں بسنے والے انسانوں کی زندگیوں پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کر رہا ہے۔

تبت کے پہاڑوں میں سے نکلنے والا یہ دریا لداخ سے ہوتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور پشاور اور راولپنڈی کے درمیان میں سے ہو کر گزرتا ہوا صوبہء سندھ میں بحیرہء عرب میں جا کر گرتا ہے۔ آج کل لیکن اِس دریا کے آخری حصے میں پانی کی مقدار اتنی کم ہو چکی ہے کہ اُلٹا سمندر کا پانی واپس اِس دریا میں آنا شروع ہو گیا ہے۔

Pakistan Wasserversorgung
دریا میں پانی کم ہونے سے زیر زمین پانی کی سطح بھی بہت نیچے چلی گئی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ گہرے کنویں کھودنا پڑ رہے ہیںتصویر: ap

قدرتی وسائل کے تحفظ کے لئے سرگرم بین الاقوامی تنظیم IUCN یعنی انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کی ایک شاخ پاکستان میں بھی ہے۔ کراچی میں اِس تنظیم کے ایک سرکردہ مشیر طاہر قریشی نے دریائے سندھ میں پانی کی کمی اور سمندری پانی کے واپس دریا میں آنے کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’اِس کی سب سے بڑی اور واحد وجہ یہ ہے کہ اَپ سٹریمز میں پانی کو ڈائیورٹ کیا گیا ہے۔ ڈیم اور بیراج بنا کر پانی کا رُخ زرعی زمینوں کی طرف کر دیا گیا ہے۔ یہ جو سمندر 54 کلومیٹر تک اندر آ کر بہہ رہا ہے، تو اِس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ سمندر میں پانی کی سطح بلند ہو گئی ہے۔ اِس سمندری پانی نے نہ صرف دریا کے پیٹ کو خراب کیا ہے بلکہ ساحلی علاقوں میں زرخیز زمینوں اور دریائی پانی کی ماہی گیری کی صنعت کو بھی ختم کیا ہے۔ ساحلی جنگلات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اب بحیرہء عرب ضلع ٹھٹھہ تک آن پہنچا ہے۔‘‘

زمین میں نمک کی زیادتی کی وجہ سے پانی پینے کے اور زمین کاشت کے قابل نہیں رہی۔ زمینی پانی کی سطح بھی کہیں نیچے جا چکی ہے اور پینے کے صاف پانی کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ اِس صورتِ حال کے باعث گزشتہ دو برسوں کے دوران انڈس ڈیلٹا کے تین دیہات کے کوئی تین ہزار افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔

مشکل حالات سے دوچار دیہات کی ایک مثال ’جاٹ محمد‘ گاؤں ہے، جہاں کے باسی پینے کے صاف اور میٹھے پانی کو ترس رہے ہیں۔ یہ لوگ مل جُل کر کشتیوں کے کرائے برداشت کرتے ہیں اور دور سے مہنگے داموں پانی لا کر استعمال کرتے ہیں۔ اِس گاؤں کے مکینوں کے لئے اُمید کی ایک کرن شمسی توانائی سے چلنے والا وہ پلانٹ ہے، جو ایک غیر سرکاری تنظیم ایس آر او یعنی سندھ ریڈیئنٹ آرگنائزیشن نے بین الاقوامی تنظیم WWF کے ساتھ مل کر اِس سال مارچ سے اِس گاؤں میں نصب کیا ہے۔

Symbolbild Nachhaltigkeit Solar, Wasser, Wind
توانائی کے معدنی وسائل تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور توانائی کے متبادل ذرائع پر توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہےتصویر: picture alliance / DW

پاکستان میں نجی شعبے کی تحقیقی تنظیم پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کا تیار کردہ یہ پلانٹ روزانہ چالیس گیلن نمکین پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرتا ہے۔ یہ مقدار اِس گاؤں کے ڈیڑھ ہزار نفوس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ناکافی سہی لیکن گاؤں کے باسی پھر بھی اِسے اپنے لئے ایک بڑی نعمت قرار دے رہے ہیں۔ اِس پلانٹ میں شمسی توانائی کی مدد سے نمکین پانی کو گرم کیا جاتا ہے اور اُس سے اٹھنے والے بخارات کو، جو کہ میٹھے پانی کی شکل میں ہوتے ہیں، الگ سے ذخیرہ کر لیا جاتا ہے۔

IUCN کے طاہر قریشی نے اِس پلانٹ پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’یقیناً یہ اقدام قابلِ ستائش ہے۔ ہمارے ہاں ہوا اور شمسی توانائی کی کوئی کمی نہیں ہے، ہمیں صرف اُس کو اپنی گرفت میں لانا ہے اور اُس سے کام لینا ہے۔ لیکن یہ ایک چھوٹا سا پلانٹ ہے، ہمیں ایسے سینکڑوں بلکہ ہزاروں پلانٹ لگانا ہوں گے، تب جا کر ہم اِس علاقے میں پانی کی قلت میں دس تا بیس فیصد کی کمی کر سکیں گے۔‘‘

پانچ لاکھ روپے کی لاگت سے تیار ہونے والا یہ پلانٹ بیس سال تک چل سکتا ہے اور سندھ ریڈیئنٹ آرگنائزیشن کے مطابق اِس ایک گاؤں کو ہی اِس طرح کے کم از کم تین مزید پلانٹس کی ضرورت ہو گی۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک