1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

’علم پوسیبل‘ تو ہر خواب کی تعبیر ممکن

بینش جاوید
12 مئی 2017

تعلیم و ثقافتی تعلقات کے لیے کام کرنے والے برطانوی عالمی ادارے برٹش کونسل نے اسلام آباد میں ایک تعلیمی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں تعلیم کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے منصوبے ’علم پوسیبل‘ پر بات چیت کی گئی۔

https://p.dw.com/p/2crOe
Indien Schüler Symbolbild
تصویر: AFP/Getty Images/S. Hussain

کانفرنس میں شامل شُرکاء نے ’علم پوسیبل‘ یا ’ تعلیم ممکن ہے‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے تعلیم کی اہمیت پر تقاریر کیں۔ اس تقریب میں شریک شمیم  اختر نامی ایک لڑکی نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ اُسے بچپن میں لڑکا بن کر تعلیم حاصل کرنا پڑی کیوں کہ اُس کے علاقے میں لڑکیوں کے گھروں سے باہر نکلنے اور اسکول جانے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔

 شمیم  اختر نے کہا کہ میٹرک پاس کرنے کے بعد جب اُس کے لیے لڑکا بن کر تعلیم حاصل کرنا ممکن نہ رہا تو اس نے کالج  میں دا‌خلے کے لیے بھوک ہڑتال کر دی جس سے تنگ آکر اس کے والدین  بالآخر اسے کالج بھیجنے پر رضامند ہو گئے۔

’علم پوسیبل‘ ایک ایسی آگاہی مہم  ہے جس کا مقصد عوام کو بتانا ہے کہ ملک کے آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت حکومت نے ہر شہری کو مفت تعلیم حاصل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ پاکستان میں برٹش کونسل کے ترجمان طورسم خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا،’’ علم بوسیبل،  پروگرام کا آغاز جنوری سن 2014 میں کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت اب تک دو لاکھ پچیس ہزار بچوں کا سرکاری اسکولوں میں داخلہ کرایا گیا ہے جن میں ایک لاکھ پینتیس ہزار بچیاں ہیں۔ ‘‘  طورسم خان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کا مقصد بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنا اور وہاں ان کے اندراج اور حاضری کو یقینی بنانا ہے۔

 منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے طورسم خان نے مزید بتایا کہ ملک بھر میں پندرہ ہزار کارکنوں اور ساڑھے تین سو محلہ کمیٹیوں نے اس پروگرام  کو کامیاب بنایا ہے۔ ان کارکنوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں جا کر والدین کو آمادہ کیا ہے کہ وہ بچوں کو اسکولوں میں بھیجیں۔

مریم زاہد  نے اپنی ٹویٹ میں لکھا،''صرف کراچی میں ہی بیس لاکھ سے زیادہ بچے اسکول جانے کے بجائے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘

پاکستان میں ترقی تعلیم کے ذریعے، سیما عزیز کا مشن

تعلیم کے  شعبے سے منسلک  متعدد شخصیات نے تقریب میں شرکت کی اور اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔ واضح رہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ نوجوان بستے ہیں لیکن  دوسرے نمبر پر اسکول نہ جانے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی یہیں رہتی ہے۔ کچھ مبصرین کی رائے میں پاکستان میں لگ بھگ  20 ملین بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔