1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمر رسيدہ مہاجرين کے ليے جرمن زبان سيکھنا ايک مسئلہ

عاصم سلیم
15 اپریل 2017

جرمنی ميں مہاجرین کے لیے انضمام کی کوشش کرنا اور جرمن زبان سيکھنا ایک لازمی عمل ہے۔ تاہم يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ کئی پناہ گزين عمر کے اس حصے ميں نہيں جس ميں ايک نئی زبان سيکھنا اور نئے ماحول سے ہم آہنگی آسان ثابت ہو۔

https://p.dw.com/p/2bHVI
Leipzig, Deutschkurs für Flüchtlinge - Lehmbangruppe Language institute
تصویر: DW/R. Dawa

قطنة کا تعلق شام سے ہے اور اس کی عمر پچاس برس سے زيادہ ہے۔ پناہ کی غرض سے اس کے بچے تو پہلے ہی جرمنی آ گئے تھے تاہم دو برس وہ بھی لائپزگ آن پہنچی۔ تمام مہاجرين کی طرح قطنة کے ليے بھی يہ لازمی ہے کہ وہ جرمن زبان سيکھے، چاہے اسے يہ عمل کتنا ہی ’طويل اور تھکا دينے والا‘ لگتا ہو۔ شامی پناہ گزين قطنة تعليم يافتہ بھی نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ اس کے ليے جرمن زبان سيکھنے والی کلاسوں ميں شرکت اور باقاعدہ پڑھائی اور بھی زيادہ مشکل ثابت ہو رہی ہے۔ سب سے بڑا چيلنج لکھنا سيکھنا ہے۔ اور ان تمام تر چيزوں کے بعد قطنة گھر جا کر اپنی گھريلو ذمہ دارياں بھی نبھاتی ہے۔

جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن  (BAMF) کی طرف سے جرمنی آنے والے ہر پناہ گزين کو بلا معاوضہ بارہ سو گھنٹوں کے ليے جرمن زبان سکھانے والی کلاسز ميں شرکت کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ عموماً بارہ سو گھنٹوں ميں ’بی ون‘ ليول تک پہنچا جا سکتا ہے، جو روز مرہ کی زندگی ميں استعمال ہونے والی زبان کے ليے کافی ثابت ہوتا ہے۔ البتہ زيادہ عمر والے مہاجرين کے ليے مقررہ مدت ميں اس معيار تک پہنچنا ذرا مشکل ثابت ہوتا ہے۔

لائپزگ ميں ليمباؤ گروپے نامی اسکول کی ايڈمنسٹريٹر سوزان الخاطب بتاتی ہيں کہ مختلف عمر کے افراد کو ايک ہی کلاس ميں زبان سکھانا اتنا موزوں نہيں اور نہ ہی يہ طلباء کے ليے مفيد ثابت ہوتا ہے۔ ان کے بقول يہ بات صاف ظاہر ہے کہ عمر رسیدہ مہاجرين کو زبان سکھانے کے ليے ذرا مختلف طريقہ کار درکار ہوتا ہے۔ الخاطب کے مطابق ايسے کورسز تشکيل ديتے وقت وفاقی دفتر کو اس بات کا خيال رکھنا چاہيے کہ زيادہ عمر والے مہاجرين کے ليے الگ سے خصوصی کلاسز کا انتظام کيا جائے۔

اسی اسکول ميں حسين النعمت بھی پڑھاتے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی زبان سيکھنے کے ليے نفسياتی طور پر بھی حاضر رہنا پڑتا ہے۔ عمر رسیدہ مہاجرين کی راہ ميں خراب صحت اور اہل خانہ کی ذمہ دارياں رکاوٹوں کی صورت ميں سامنے آتی ہيں۔ النعمت کے مطابق ايسے افراد کے ليے ايک کليدی مسئلہ چيزوں کو ياد رکھنا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا حل کلاسز ميں شرکت کرنے والوں کی تعداد کو محدود کرنے سے جڑا ہے۔

شامی مہاجر ريحام، جنگ کی تباہیوں سے کاميابی کی بلنديوں تک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید