غزّہ جنگ میں اہداف کی تکمیل ہوگئی ہے: اسرائیلی وزیرِ اعظم
12 جنوری 2009یروشلم سے ہمارے نمائندے ہریندرا مشرا کا کہنا ہے جنگ میں اسرائیلی کامیابی کے دعوے کے باوجود غزّہ سے نہ صرف یہ کہ اسرائیلی سرزمین کے اندر راکٹ داغے جانے کا سلسلہ جاری ہے بلکہ اس کے دائرہ کار میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ شروع کرنے کا مقصد اسرائیل نے راکٹ داغے جانے کے سلسلے کو روکنا بتایا تھا۔
غزّہ جنگ کے سولہویں روز اسرائیلی افواج غزّہ شہر کے گنجان آباد علاقوں تک پہنچ گئیں جب کہ اتوار کے روز اسرائیلی افواج نے مزید ستائیس افراد ہلاک کردیے ہیں۔ دوسری جانب حمّاس عسکریت پسندوں نے اسرائیلی افراج پر ٹینک شکن میزائل فائر کیے۔ حمّاس کی جانب سے اسرائیل کے جنوبی شہروں میں راکٹ داغے جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم ایہود آلمرٹ نے اپنی کابینہ کو بتایا ہے کہ اسرائیل غزّہ جنگ میں اپنے تمام تر اہداف تقریباً حاصل کرچکا ہے۔ سولہ روز سے جاری اس جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک اندازہ کے مطابق آٹھ سو ساٹھ سے زائد ہوچکی ہے۔
دوسری جانب امریکی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان نے ایک قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کی ہے جس میں غزّہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین کو اکثریت حاصل ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی کے نو منتخب صدر باراک اوباما بیس جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہے ہیں۔
نو منتخب امریکی صدر باراک اوباما نے امریکی ریڈیو اے بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ بیس جنوری کو امریکی صدر کا حلف لیتے ہی وہ فلسطین اسرائیل تنازعے کے حل کے لیے کوششیں شروع کردیں گے۔ باراک اوباما کے مطابق وہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے ایک ٹیم تشکیل دیں گے۔ اوباما کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ شرقِ اوسط کے لیے ایک ایسی پالیسی وضح کریں گے جس سے اسرائیل اور فلسطین دونوں کی خواہشات کی تکمیل ہوسکے گی۔ تاہم باراک اوباما نے یہ بھی کہا کہ ہر ملک کو جارحیت کے خلاف دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔
واشنگٹن میں ہمارے نمائندے انور اقبال نے ڈائچے ویلے اردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہت مشکل ہے کہ باراک اوباما مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اپنے پیش روؤں سے مختلف کوئی پالیسی اختیار کریں تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ مخالف امن پسند لابی امریکہ میں اثر رکھتی ہے اور اوباما کی پالیسیوں پر ضرور اثر ڈالے گی۔