1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ جنگ: کیا کھویا اور کیا پایا؟

ترجمہ :افضال حسین19 جنوری 2009

غزہ جنگ وقتی طور پر ہی سہی مگر بند ہو گئی۔ اسرائیلی فوجی غزہ سے نکلنا شروع ہوگئے ہیں۔مجموعی طور پر اس جنگ میں ایک ہزار سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس حوالے سے پیٹر فلپ کا لکھا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/GbSr
اسرائیلی فوج کے جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھی عسکریت پسند تنظیم حماس کی جانب سے جنوبی اسرائیلی علاقوں پر کئی راکٹ پھینکے گئےتصویر: AP

اب جب کہ غزہ میں جنگ بند ہو چکی ہے، اس جنگ کے شکار افراد تو پس منظر میں چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ ’’فاتح‘‘ اب سامنے آ چکے ہیں۔

ہر فریق یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اسے فتح حاصل ہوئی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ اور ان کے وزیر دفاع ایہود باراک ایک دوسرے کو تھپکیاں اور فتح کی مبارکباد دے رہے ہیں۔ دوسری جانب غزہ میں حماس کے رہنما اسمعیل ہانیہ نے کسی خفیہ مقام سے مساجد کے لاؤڈسپیکروں کے ذریعے اعلان جاری کیا کہ ان کی تنظیم کو فتح حاصل ہوئی ہے۔

اسرائیلی سیاستدان یقین دلا رہے ہیں کہ کہ فوجی آپریشن کے ذریعے انہوں نے اپنا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہدف تھا کیا؟ حماس کی طاقت توڑنا؟ اس میں تو وہ اسی طرح سے ناکام رہا ہے جیسا کہ وہ 2006 میں لبنان میں حزب اللہ کی کمر توڑنے میں ناکام رہا تھا۔ کیا اسرائیل کا ہدف یہ تھا کہ غزہ سے راکٹوں کے حملے ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں لیکن یہ مقصد بھی حاصل نہ ہو سکا۔ فائر بندی کے ایک ہی گھنٹے بعد غزہ سے اس پردوبارہ راکٹ پھینکے گئے۔ اسی طرح ہتھیاروں کی اسمگلنگ کو بھی پورے طور پر ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔

یورپی سیاستدان بھی یہی تقاضا لے کر مشرق وسطیٰ پہنچے تھے۔ کیا ان کی کوششیں بھی رایئگاں چلی گئیں؟

حماس کی اب کوشش ہے کہ وہ یہ ثابت کر سکے کہ فلسطینیوں کی وہی ایک جماعت ہے جو اسرائیلی طاقت کی مؤثر مزاحمت کر سکتی ہے۔ اس جنگ کے ذریعے بہر حال ایک بات پھر سے واضع ہو گئی ہے کہ فوجی کارروائی سے مسئلے حل نہیں ہوا کرتے بلکہ فریقین اور زیادہ سختی سے اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹ جاتے ہیں۔

موجودہ جنگی حماقت نے ایک ہزار سے زائد انسانوں کی جان لے لی۔ کئی ہزار زخمی ہوئے۔ ڈیڑھ ملین افراد پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ غزہ کا بنیادی ڈھانچہ تباہ و برباد ہو کر رہ گیا۔ اب تمام تر کوششوں کو بروئے کار لا کر امن مذاکرات کو پھر سے شروع کرنا ہو گا، جو ٹینکوں، توپوں اور بمبار طیاروں کو حرکت میں لانے کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ فلسطینیوں کو بھی تباہی و بربادی سے قطع نظر امن کے لئے ہاتھ آگے بڑھانا ہو گا۔ دونوں جانب کے عوام کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو ہرگز ووٹ نہ دیں جن پر جنگ کا بھوت سوار رہتا ہے۔