1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ پٹی کے خلاف تین ہفتے سے جاری اسرائیلی کارروائی میں مزید شدت

16 جنوری 2009

جمعرات کو غزہ سٹی گذشتہ تین ہفتوں کے شدید ترین حملوں کی زَد میں رہا۔ اسرائیلی فوجی زیادہ سے زیادہ شہر کے وسطی حصے کی طرف بڑھ رہے ہیں تاکہ جلد کسی ممکنہ فائر بندی سے پہلے پہلے حماس کی رہی سہی طاقت بھی ختم کی جا سکے۔

https://p.dw.com/p/GZWE
اقوامِ متحدہ کے کارکن غزہ سٹی میں اپنے ہیڈکوارٹر پر اسرائیلی بمباری سے لگنے والی آگ کو بجھانے کی کوشش میںتصویر: picture-alliance/ dpa

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت کی طرف سے اب تک مرنے والے فلسطینیوں کی تعداد ایک ہزار ایک سو پانچ اور زخمیوں کی پانچ ہزار ایک سو بتائی گئی ہے۔ جبالیہ مہاجر کیمپ کے ایک مکان پر اسرائیلی فضائی حملے میں حماس کے وزیر داخلہ سعید صیام بھی اپنے بیٹے، بھائی اور نصف درجن دیگر افراد کے ہمراہ مارے گئے۔ حماس کی پولیس اور سیکیورٹی کے تیرہ ہزار اراکین سعید صیام کی نگرانی میں کام کرتے تھے۔

کل غزہ پٹی میں ایک ہسپتال اور ایک ٹیلی وژن دفتر کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کا ہیڈکوارٹر بھی، جہاں سات سو فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی ہے، اسرائیلی بمباری کی زَد میں آیا، جس کے بعد اِس عالمی ادارے کی طرف سے وہاں ذخیرہ کردہ ایندھن اور خوراک کو آگ لگ گئی۔

اسی دوران ایک ہفتے کے اندر اندر اپنے دوسرے دورہء مشرقِ وُسطےٰ پر گئے ہوئے جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے اسرائیلی حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد راملہ میں فلسطیتی حکومت کے بھی سرکردہ نمائندوں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ دریں اثناء وہ ایک بار پھر مصری دارالحکومت قاہرہ پہنچ گئے ہیں۔

Steinmeier auf Nahost-Reise Treffen mit Israels Präsident Peres
جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر اسرائیلی صدر شمون پیریز کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/ dpa

اسرائیل کے دورے پر گئے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے تل ابیب میں اِس واقعے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئےکہا کہ اُنہوں نے اقوامِ متحدہ کے کمپاؤنڈ پر بمباری کے خلاف اسرائیلی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ سے شدید احتجاج کیا ہے اور اِس واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

بعد ازاں بان کی مون نے اسرائیلی صدر شمون پیریز کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ پیریز نے اقوامِ متحدہ کے کمپاؤنڈ پر حملے کے لئے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کبھی اِس عمارت کو نشانہ نہ بناتا لیکن وہاں سے فائرنگ کی گئی تھی۔ شمون پیریز نے کہا، اچھا ہوا کہ اِس بمباری میں کسی کی جان نہیں گئی اور یہ کہ اسرائیل غزہ میں اقوامِ متحدہ کا پہلے کی طرح اب بھی احترام کرتا ہے۔

جواب میں بان کی مون نےکہا کہ اسرائیل، فلسطینیوں اور خطّے کے لئے یہ بہت کڑا وقت ہے۔ اُنہوں نے کہا، وہ پہلے بھی یہ کہتے رہے ہیں اور اب بھی وہ اسرائیلی شہریوں پر غزہ سے کئے جانے والے راکٹ حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔

جمعرات کو یروشلم میں بان کی مون نے پہلے تو یہ کہا کہ اسرائیل فائر بندی کے حوالے سے جلد کوئی فیصلہ کرنے والا ہے، جو اُنہیں اُمید ہے کہ درست فیصلہ ہی ہو گا۔ بعد ازاں لیکن اُنہوں نے کہا کہ ایسا ہونے میں ابھی کچھ روز لگ سکتے ہیں۔

Gazastreifen - bomberdiertes UN-Hauptquartier
غزہ میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ذخیرہ ہزاروں ٹن اناج جل کر راکھ ہو گیاتصویر: picture-alliance/ dpa

اِدھر حماس نے تجویز پیش کی ہے کہ گذشتہ فائر بندی معاہدے میں ایک سال کی توسیع کی جائے، پانچ تا سات روز کے اندر غزہ پٹی سے تمام اسرائیلی دستے واپس چلے جا‌ئیں اور نہ صرف تمام سرحدی گذر گاہیں فوری طور پر کھول دی جائیں بلکہ اُن کے مسلسل کھلی رہنے کے لئے بین الاقوامی ضمانتیں بھی دی جائیں۔ دوسری طرف اسرائیل نہ صرف یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ حملے بند ہوں بلکہ یہ بھی کہ مصر کی طرف سے سرنگوں کے راستے حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ بھی روکی جائے۔

حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ کی روک تھام ہی کے سلسلے میں کسی حتمی بات چیت کے لئے اسرائیلی وزیر خارجہ زیپی لونی واشنگٹن جا رہی ہیں جبکہ مصر کے تیار کردہ فائر بندی منصوبے پر بات چیت کے لئے اسرائیلی مذاکراتی وفد کے قائد یروشلم میں صلاح و مشورے کے بعد آج ایک بار پھر قاہرہ پہنچ رہے ہیں۔

جہاں غزہ میں فلسطینی باشندوں کے لئے اکیس روز سے جاری جنگ کے باعث حالات کب کے ناقابلِ برداشت ہو چکے ہیں، وہاں عرب دُنیا ابھی تک کوئی مشترکہ حکمتِ عملی اپنانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ قطر اور شام جیسے ممالک حماس کے لئے زیادہ ہمدردی رکھتے ہیں جبکہ واشنگٹن کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ممالک سعودی عرب اور مصر حماس کے مخالف ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج قطر کے دارالحکومت دوہہ میں مجوزہ عرب لیگ سربراہ کانفرنس کے لئے کورم پورا نہیں ہو سکا۔ کانفرنس کے انعقاد کے لئے بائیس رُکنی تنظیم کے کم از کم پندرہ ارکان کی حمایت ضروری تھی، جو کہ حاصل نہیں ہو سکی۔ تاہم سبھی عرب ممالک اُنیس اور بیس جنوری کو کویت میں مجوزہ عرب اقتصادی سربراہ کانفرنس میں غزہ کی صورتحال پر تبادلہء خیال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔