1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غصے کو نفرت اور تعصب میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے، گاؤک

24 دسمبر 2016

اپنے سالانہ کرسمس پیغام میں جرمن صدر یوآخم گاؤک نے ہمدردی اور ہم آہنگی کی بات کرتے ہوئے نفرت اور تعصب سے خبردار کیا ہے۔ ان کے بقول دہشت گردی کے خلاف غصےکو کسی صورت بھی نفرت اور تشدد میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/2Upiv
Deutschland Weihnachtsansprache Bundespräsident Gauck
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber

جرمن صدر یوآخم گاؤک نے اپنے پیغام میں کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب جرمنی دہشت گردی کا نشانہ بنا ہے:’’ہمیں اپنے معاشرے میں تقسیم کو مزید وسعت دینے، کسی گروہ کو شک کی نگاہ سے دیکھنے اور تمام سیاستدانوں کو قصووار قرار دینے سے احتراز کرنا چاہیے۔‘‘ گاؤک کے بطور صدر کرسمس کے اس آخری پیغام میں برلن میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعے کا موضوع ہی چھایا رہا۔ گاؤک اگلے برس فروری میں ہونے والی صدارتی انتخابات میں دوبارہ سے امیدوار بننے سے انکار کر چکے ہیں۔

گاؤک کے مطابق:’’برلن کی کرسمس مارکیٹ پر حملے میں ہونے والی ہلاکتوں نے ہمیں انتہائی خوف ذدہ اور پریشان کر دیا ہے۔ اس موقع پر لوگ غصے میں ہیں، ڈرے ہوئے ہیں اور خود کو کمزور محسوس کر رہے ہیں۔‘‘ گاؤک نے خبردار کیا کہ اس طرح کے جذبات اور غصے کو قابو میں رکھتے ہوئے اسے نفرت یا تشدد میں تبدیل ہونے سے ہر حال میں روکنا ہو گا۔

Berlin Trauer Weihnachtsmarkt Breitscheidplatz
گاؤک کے بطور صدر کرسمس کے اس آخری پیغام میں برلن میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعے کا موضوع ہی چھایا رہاتصویر: Getty Images/S. Gallup

گاؤک نے جرمن معاشرے میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا اور خاص طور پر سیاسی سطح پر مہاجرین کے حوالے سے پالیسیوں پر بھی۔ جرمن صدر نے زور دیا کہ مہاجرین کے بارے میں پالیسیوں پر سیاسی سطح پر بات چیت ہونا لازمی ہے اور ساتھ ہی اس موضوع پر بھی تبادلہ خیال کیا جانا ضروری ہے کہ مستقبل میں اپنے شہریوں کو تحفظ دینے کے لیے مزید کیا کچھ کیا جانا چاہیے۔

صدر نے جرمن شہریوں سے کہا کہ وہ حکومت پر بھروسہ رکھیں اور معاشرے کو پر امن اور متحد رکھنے کے لیے ہر سطح پر کوششیں کریں۔ اپنے خطاب میں یوآخم گاؤک نے ان ہزاروں رضاکاروں کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے جرمنی آنے والے مہاجرین کی مدد کی اور انہیں یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ وہ اجنبی ہیں: ’’ غیر یقینی حالات میں معاشرے کے ان افراد کے مؤثر اقدامات کو سراہا جانا بھی ضروری ہے۔ اس لیے نہیں کہ ان افراد نے کوئی غیر معمولی کام کیا ہے بلکہ انہوں نے یہ کام غیر معمولی انداز میں اچھے طریقے سے کیا ہے۔‘‘