1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’غیرت‘ کے نام پر ایک نوجوان جوڑا قتل

بینش جاوید، روئٹرز
12 ستمبر 2017

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک نوجوان جوڑے کو ایک پشتون جرگے کے حکم پر ’غیرت کے نام‘ پر بجلی کے جھٹکوں سے ہلاک کر دیا گیا۔ یہ جوڑا گھر سے بھاگ کر شادی کرنا چاہتا تھا۔

https://p.dw.com/p/2jmSp
Pakistan - Ehrenmord an Qandeel Baloch.
تصویر: Reuters

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق کراچی پولیس نے بتایا کہ پشتون جرگے کے ارکان کے حکم پر اس جوڑے کو قتل کیا گیا۔  پولیس افسر امان مروت نے لڑکے اور لڑکی کے والد اور چچاؤں کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ جرگے کہ ان تیس ارکان کو بھی گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو اس واقعے کے بعد فرار ہیں۔

غیرت کے نام پرقتل، سدباب کیا ؟

امان مروت نے روئٹرز کو بتایا،’’ اس معصوم جوڑے کو چارپائی سے باندھا گیا اور پھر انہیں بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔‘‘ مروت کے مطابق پندرہ سالہ لڑکی مبینہ طور پر اپنے سترہ سالہ بوائے فرینڈ کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی تھی۔ اس لڑکی کو پہلے قتل کیا گیا اور دفن کر دیا گیا۔ اگلے دن لڑکے کو بھی جان سے مار دیا گیا۔ مروت کا کہنا ہے کہ اس نے بطور پولیس افسر اپنے پچیس سالہ تجربے میں غیرت کے نام پر قتل کے کئی واقعات دیکھے ہیں۔

انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ذہرہ یوسف نے روئٹرز کو بتایا،’’ یہ قتل پاکستانی معاشرے کے قبائلی ہونے کو ظاہر کرتے ہیں جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ طاقت جرگوں کے پاس ہے۔‘‘ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار سے زائد عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان: انصاف کی متلاشی خواتین

اکثر دیہی علاقوں میں جرگے یا پنچائیت کے ارکان مقامی افراد کے درمیان تنازعات سے متعلق فیصلے کرتے ہیں۔ جرگوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے لیکن اکثر ان کے فیصلے کا احترام کیا جاتا ہے اور ان پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔

کراچی کے اس حالیہ قتل کے واقعے میں لڑکی کے گھر والے لڑکی کی شادی کرانے کے لیے تیار ہوگئے تھے لیکن جرگے کا یہ فیصلہ تھا کہ اگر دونوں خاندانوں نے لڑکے اور لڑکی کو قتل نہ کیا تو گاؤں میں رہائش پذیر ان کے گھر والوں کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بھائی نے بہن اور بھانجی کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا

’غیرت‘ کے نام پر ایک اور قتل

کراچی کی ایک وکیل ملیحہ ضیا  کا کہنا ہے،’’ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے قانون کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ لڑکے کے والد کو یہ یقین ہی نہیں تھا کہ ریاست اس کی مدد کر سکتی ہے اور جرگے کے ارکان کو بھی ریاست کا کوئی خوف نہیں تھا۔‘‘