1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیرت کے نام پر قتل، سخت سزا قانون میں شامل کر دی گئی

عابد حسین
6 اکتوبر 2016

پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ نے غیرت کے نام پر قتل کے قانون میں ترمیم پر پیش کردہ بل کی منظوری دے دی ہے۔ ترمیم کے بعد مجرم کو موت کی سزا پر معافی ملنے کی صورت میں بھی عمر قید کی سزا کا سامنا ہو گا۔

https://p.dw.com/p/2Qyw5
Symbolbild Ehrenmorde Gewalt gegen Frauen
تصویر: picture-alliance/dpa

 

 

آج جمعرات کے روز پاکستانی پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے پیش کردہ مسودہٴ قانون کی منظوری دے دی ہے۔ اِس بل کی منظوری پاکستانی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے دوران متفقہ طور پر دی گئی۔ اراکین پارلیمنٹ کے مطابق پہلے سے موجود قانون میں پائی جانے والی بعض خامیوں کو رفع کر دیا گیا ہے۔

سابقہ قانون میں جو ترمیم کی گئی ہے، اُس کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کے مجرموں کو سخت سزاؤں کا سامنا ہو گا۔ مجرم کو دی گئی موت کی سزا کو اگر مقتولہ کے خاندان والے معاف بھی کر دیں گے تو اُسے پچیس برس کی عمر قید ہر صورت میں بھگتنا ہو گی۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر کے مطابق امید کی جاسکتی ہے کہ یہ بل معاشرے کے اِس ناسور کو ختم کرنے میں یقینی طور پر بارآور ثابت ہو گا۔ پاکستانی ہیومین رائٹس کمیشن کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کرنے والے ’قصاص و دیت‘ کے نام پر آسانی سے بچ جایا کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اِس قانون میں یہ ترمیم ایک اہم اور مثبت سماجی فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے۔

Qandeel Baloch Pakistan
مقتول قندیل بلوچ کو تقریباً تین ماہ قبل اُس کے بھائی نے قتل کر دیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/PPI

اندازوں کے مطابق پاکستان میں سالانہ بنیاد پر تقریباً پانچ سو عورتیں غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔ پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن نے گزشتہ برس ایسی ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد بیان کی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سابقہ قانون میں ترمیم کا بل سوشل میڈیا پر پاکستانی ’کم کارداشیان‘ مانی جانے والی قندیل بلوچ کے قتل کے تین ماہ بعد منظور کیا گیا ہے۔

اِس بل کی منظوری پر سابقہ سینیٹر صغریٰ امام نے کہا کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی لوگوں کے بہتر رویے بنانے کے لیے کی جاتی ہے اور اِس کا مقصد عام لوگوں میں تخریبی رویوں کی حوصلہ شکنی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امید کی جا سکتی ہے کہ اِس بل سے مثبت اثرات پاکستانی سوسائٹی پر مرتب ہوں گے۔ سابقہ سینیٹر صغریٰ امام نے اِس بل کو سب سے پہلے قانون سازی کے لیے پیش کیا تھا لیکن بعد میں ترمیم اور اضافوں کے ساتھ سنیٹر فرحت اللہ بابر نے اسے پارلیمنٹ میں متعارف کرایا۔