1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فائر بندی مسلے کا حل نہیں : روس

10 اگست 2008

روس نے کہا ہے کہ جب تک جارجیا کی افواج جنوبی اوسیتیا سے نہیں نکلتیں اس مسلے کا حل ممکن نہیں ہے۔ دریں اثنا روسی وزیر اعظم پوتین نے جورجیا پر نسل کشی پر الزام کرتے ہوئے باقاعدہ تحقیقات کروانے پر زور دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Etgv
روسی صدر دمتری میدوی ایدفتصویر: AP

جورجیا کی طرف سے فائر بندی پر زور دینے کے باوجود جنوبی اوسیتیا کے تنازعہ پر ہونے والی لڑائی میں شدت آتی جا رہی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق روسی فضائیہ نے شمالی اوسیتیا کے نزدیک ہی گوری نامی شہر میں جارجیائی فوجی اڈوں پر بمباری کی ہے۔ روس نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے جنوبی اوسیتیا کے دارلحکومت سخِنوالی کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ بہرحال ابھی تک اس بارے میں کسی آزاد زریعے سے خبر موصول نہیں ہوئی اور اس وقت صحیح صورتحال کیا ہے کوئی نہیں جانتا۔روسی حکام نے کہا ہے کہ تین دنوں سے جاری اس لڑائی میں دو ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ جارجیا کے مطابق ابھی تک تقریبا دو سوافراد ہلاک ہوئے ہیں۔

Georgia's President Mikhail Saakashvili besucht ein Militärkrankenhaus
جارجیا کے صدر میخائل شاکاشویلی روسی بمباری کے نتیجے میں زخمی ہونے والے ایک شہری سے مل رہے ہیںتصویر: picture-alliance / dpa

جارجیا کے صدر میخائل شاکاشویلی نے روس پر جنگی جرائم کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے روسی فضائیہ شورش زدہ علاقے سے ہزاروں کلو میٹر دور علاقوں میں بمباری کی ہے، انہوں نے کہا روس جنوبی اوسیتیا کا بہانہ بنا کرجارجیا کو تباہ کر رہا ہے۔ شاکاشویلی نے عالمی برادری پر زور ڈالا ہے کہ بغیر کسی تاخیر کے روس کی جارحیت کو روکا جائے کیونکہ روس کی طرف سے کی جانے والی بمباری کے نتیجے میں نوے فیصد ہلاک ہونے والے عام شہری ہیں۔

دوسری طرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جارجیا اور روس کے مابین جنگ بندی کے لئےتیسرے ہنگامی سیشن میں بھی کوئی حتمی مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ نیویارک میں ہونے والے اس سیشن میں روسی سفارت کار نے کہا ہے کہ اس تشدد کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب جارجیائی فوجیں جنوبی اوسیتیا سے نکل کر واپس اپنے ٹھکانوں پرنہیں چلی جاتیں۔ انہوں نے بھی جارجیا کے صدرمیخائل شاکاشویلی پرنسل کشی اور جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کا الزام عائد کیا۔

دریں اثنا بیجنگ اولمپیائی کھیلوں کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لئے بیجنگ آئے ہوئے امریکی صدر جورج ڈبلیو بش نے روس پر زور ڈالا ہے کہ جارجیا کے آزاد تشخص اور سرحدوں کی پاسداری کی جائے۔ صدر بش نے جارجیا کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا امریکہ اس بارے میں سنجیدہ اقدامات کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ روسی حملے جنوبی اوسیتیا اور شورش زدہ علاقے سے دور بھی کئے جا رہے ہیں اور اس طرح کے حملوں کے موجودہ صوتحال کو مزید کشیدہ کر سکتے ہیں۔

دریں اثنا پورپی یونین، نیٹو اور امریکی سفارتکاروں کا ایک مشترکہ مشن جارجیا بھیجا جا رہا ہے جو اس بحران کے خاتمے کے لئے مذاکراتی عمل شروع کر ےگا۔

Konflikt zwischen Georgien und Russland
جنوبی اوسیتیا سے لوگ ہجرت پر مجبور ہو گئے ہیںتصویر: AP

دوسری طرف ششماہی بنیادوں پرتبدیل ہونے والے یورپی یونین کے موجودہ صدر دفتر کا اعزاز رکھنے والے ملک فرانس نےجارجیا اور روس کےمابین جنوبی اوسیتیا پر ہونی والی لڑائی کے خاتمے کے لئے تین نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے۔ اس منصوبے میں فوری طور پر فائر بندی کے مطالبے کے ساتھ کہا گیا ہے کہ روس اور جارجیا کی افواج دوبارہ اپنی اپنی پرانی جگہوں پر واپس چلی جائیں۔ فرانس نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ جارجیا کی آزاد مملکت اورسرحدوں پاسداری کی جائے۔ آئندے ہفتے کے آغاز پر یورپی یونین کے وزرائے خارجہ جنوبی اوسیتیا کی کشیدہ صورتحال پر بات چیت کا آغاز کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق مذکورہ معاملے پر ستائیس ممالک پر مشتمل پورپی یونین کے سمٹ بلوانے کا امکان بھی ہو سکتا ہے۔

Mobilmachung in Georgien
جارجیائی افواج جنگی تیاریوں میں مصروفتصویر: AP

گذشتہ سولہ سال سے روس کی پشت پناہی سے جارجیا سے الگ ہو کر ایک آزاد ریاست کی شکل اختیار کرنے کے لئے کوشاں خِطے جنوبی اوسیتیا کے تنازعے نے جارجیا اور روس کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ جمعرات کے روز جارجیا کے فوجی دَستوں نے اِس علاقے کو پھر سے اپنے کنٹرول میں لانے کے لئے بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا اور فوراً بعد اعلان کیا کہ جنوبی اوسیتیا کے دارالحکومت سنِخوالی پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ جنوبی اوسیتیا نے 1992ء میں جارجیا سے علٰیحدگی کا اعلان کر دیا تھا اور تب سے عملاً آزاد اور خود مختار ہے۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر اِسے جارجیا کا ہی حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ دو بار، 1992ء میں اور 2006ء میں ہونے والے ریفرینڈمز میں جنوبی اوسیتیا کے شہریوں نے جارجیا سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ دئے، تاہم بین الاقوامی سطح پر اِن ریفرینڈمز کو تسلیم نہیں کیا گیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید