فارک کے رہنما کی ہلاکت تنظیم کے لیے بڑا دھچکا
6 نومبر 2011کولمبیا کے صدر خوآن مانوئل سانتوس نے فارک کے رہنما کو ہلاک کرنے والی کارروائی میں حصہ لینے والے فوجی اہلکاروں کی تعریف کی اور باغیوں پر زور دیا کہ وہ ہتھیار ڈال کر حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں۔
دارالحکومت بگوٹا سے 650 کلومیٹر دور پوپاین شہر میں خطاب کرتے ہوئے صدر سانتوس نے کہا کہ باغیوں کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کیے گئے تھے۔
یہ تازہ ترین کارروائی حکومت کی باغیوں کے خلاف کامیاب فوجی کارروائیوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔ بائیں بازو کے باغی رہنما الفونسو کانو نے بگوٹا کی نیشنل یونیورسٹی سے قانون اور بشریات کی تعلیم حاصل کر رکھی تھی اور انہوں نے مارچ 2008ء میں تنظیم کے سابق رہنما کے انتقال کے بعد تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ انہوں نے 1990ء کے عشرے میں وینزویلا اور میکسیکو میں ہونے والے امن مذاکرات میں بھی حصہ لیا تھا۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ الفونسو کے بعد تنظیم کی سربراہی کون سنبھالے گا۔ ایک خود مختار سکیورٹی تجزیہ کار الفریڈو رینجل نے کہا، ’’کانو کی ٹکر کا کوئی اور رہنما موجود نہیں اور ان کی جگہ لینا دشوار ہو گا۔‘‘ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ قلیل مدت میں قیادت کا فقدان ہو گا مگر اس سے تنظیم فوری طور پر ختم نہیں ہو جائے گی۔
لگ بھگ 8,000 اراکین پر مشتمل یہ تنظیم 1964ء سے حکومت کے خلاف برسر پیکار ہے۔ 1980ء کی دہائی کے وسطی سالوں میں فارک نے اپنے قیدیوں کو رہا کرانے کے لیے فوجی اہلکاروں کو اغوا کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور 1990ء کی دہائی میں اس نے عام شہریوں اور سیاست دانوں کو بھی اغوا کا ہدف بنانا شروع کر دیا تھا۔
فارک اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے اغوا برائے تاوان کے علاوہ منشیات کی اسمگلنگ کا بھی سہارا لیتی ہے۔ حالیہ برسوں میں فارک کے خلاف امریکہ کے کولمبیا حکومت کے ساتھ تعاون کی بدولت تنظیم کے خلاف متعدد کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عاطف بلوچ