1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فاٹا: خاٹول خان کا جمع کردہ خزانہ

دانش بابر، پشاور17 جنوری 2016

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اسی سالہ خاٹول خان قدیم سکّوں اور نوادرات جمع کرنے کے شوقین ہیں۔ گزشتہ ساٹھ برسوں سے جمع کیے جانے والے ان نوادرات کی قیمت اب کروڑوں روپے ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hevi
Pakistan Khatol Khan Münzsammler
تصویر: Danish Baber

درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے اس بزرگ نے اپنا شوق پورا کرنے کے لئے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ اسی سالہ خاٹول خان گزشتہ قریب ساٹھ برسوں سے سکّے اور نوادرات جمع کر رہے ہیں۔ ان کا یہ کئی دہائیوں پرانا شوق مہنگا ضرور تھا لیکن اب ان کے خاندان کے افراد کے مطابق خاٹول خان کے جمع کردہ نوادرات کی قیمت کئی کروڑ روپے تک ہے، جس میں کئی سو سال پرانے سکّے، مجسمے، میڈلز اور دوسرے نوادرات شامل ہیں۔

اپنے دادا خاٹول خان کے اس مشعلے کے حوالے سے تیس سالہ صدور جان کہتے ہیں کہ انہوں نے بچپن ہی سے اپنے دادا کو مختلف سکّے اور قدیم اشیاء جمع کرتے دیکھا ہے اور ان کو اپنے جمع کردہ مجموعے سے انتہائی لگاؤ ہے۔ اپنے دادا کے اس مہنگے مشعلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدور جان کا کہنا تھا، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ دادا جی نے لاکھوں روپے اس مشعلے کے نظر کردیے ہیں، ان سکّوں، مجسموں اور تمغوں کو پانے کے لئے انہوں نے دور دراز کے علاقوں تک پیدل سفر بھی کیا۔ یہ ان کے شوق کی انتہا تھی۔‘‘

Pakistan Khatol Khan Münzsammler
عمر رسیدہ خاٹول خان کہتے ہیں کہ شروع میں وہ صرف پرانے سکّے جمع کرتے تھے، جس میں ان کے پاس اب ایسے قدیم سکّے موجود ہیں جو کئی سو سال پرانے ہیں۔تصویر: Danish Baber

صدور جان کہتے ہیں کہ ان کے دادا نے اپنے جمع کردہ مجموعے کو فروخت کرنے کا کبھی سوچا تک بھی نہیں۔ کئی بار وہ وزیرستان سے افعانستان تک کا سفر محض ایک سکّے یا ایک میڈل کو خریدنےکے لئے کر چکے ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے کسی بھی جمع کردہ چیز کو کم تر نہیں سمجھا، ’’کبھی کبھار لگتا ہے کہ دادا جی نے اس شوق کو پورا کرنے میں خاندان کے بہت سارے پیسے ضائع کردیے ہیں، لیکن دادا کی خوشی اور ان کا سکون ہمارے لئے سب سے بڑھ کر ہے۔‘‘

عمر رسیدہ خاٹول خان کہتے ہیں کہ شروع میں وہ صرف پرانے سکّے جمع کرتے تھے، جس میں ان کے پاس اب ایسے قدیم سکّے موجود ہیں جو کئی سو سال پرانے ہیں، یہ ان ادوار کے ہیں، جب ٹیکنالوجی کا نام ونشان تک نہیں تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں سکّوں کے علاوہ خاٹول خان کے پاس مختلف سرکاری اور فوجی تمغے بھی موجود ہیں، جس میں سن1775 سے لے کر مغلیہ دور، برطانیہ، امریکہ، چینی، پاکستانی، افغانی اور ایرانی حکومت کے میڈلز شامل ہیں۔ خاٹول خان کہتے ہیں کہ ان کا یہ مجموعہ صرف ایک شوق ہے، ان کو بہت خوشی ملتی ہے جب خاندان، دوست یا دوسرے لوگ ان کی کولیکشن کو دیکھتے ہیں اور ان چیزوں کی تعریف کرتے ہیں۔

خاٹول خان کا کہنا تھا، ’’یہ میری پوری زندگی کی کمائی ہے، بہت مشکل سے ان (نوادرات) کو جمع کیا ہے، اگر کچھ چیزیں دوست احباب سے مفت ملی تو کچھ پر ہزاروں روپے خرچ کر ڈالے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کبھی کبھار ان کے لئے کسی کو چیز خریدنا مشکل ہوتا تو وہ اس کے لئے ننواتے (قبائلی رسم جو کسی کو راضی کرنے کے لئے کی جاتی ہے) کیونکہ بعض اوقات سکّے، تمغے یا مجسمے کی قیمت بہت زیادہ بتائی جاتی تھی۔

Pakistan Khatol Khan Münzsammler
خاٹول خان کو گوکہ اپنے جمع کردہ تمام نوادرات سے بے حد محبت ہے لیکن ان کی خواہش ہے کہ مستقبل میں وہ اس کولیکشن کو کسی ادارے کو عطیہ کردیںتصویر: Danish Baber

سکّوں اور میڈلز کے علاوہ خاٹول خان کے پاس کچھ ایسے مجسمے بھی موجود ہیں جن کے قیمت یا قدر کے بارے میں ان کو حال ہی میں پتہ چلا، ’’میرے جمع کردہ مجموعے میں بدھا، اشوک، کالی ماتا اور یونان دور کے کچھ چھوٹے مجسمے بھی ہیں، جن کے بارے میں کچھ دن پہلے ایک آثار قدیمہ کے ماہر نے بتایا ہے کہ ان کی قیمت کئی لاکھ یا پھر کروڑوں روپوں میں ہو سکتی ہے۔‘‘

خاٹول خان کو گوکہ اپنے جمع کردہ تمام نوادرات سے بے حد محبت ہے لیکن ان کی خواہش ہے کہ مستقبل میں وہ اس کولیکشن کو کسی ایسے ادارے کو عطیہ کردیں، جو ان کی زندگی کے اس اثاثے کا خیال رکھیں۔ ان کا خاندان بھی اس فیصلے کے حامی ہے۔ اس بارے میں صدور جان کہتے ہیں، ’’دادا جی کا یہ ایک اچھا فیصلہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ عجائب گھر میں یہ چیزیں بہتر طور پر محفوظ کی جاسکتی ہیں۔‘‘