1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فاٹا ریفارمز میں نظر انداز کیے جانے پر خواتین کے تحفظات

فریداللہ خان، پشاور
13 مارچ 2017

پاکستان کے قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی ‌خواتین نے فاٹا ریفارمز کمیٹی اور اس کے نتیجے میں آئندہ کے اقدامات میں خواتین کو نظر انداز کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2Z6TZ
Pakistan Mitglied Nationalversammlung Bushra Gohar
تصویر: privat

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے چند روز قبل قبائلی علاقوں میں اصلاحات کی منطوری دی ہے۔ ان اصلاحات کے مطابق آئندہ پانچ سالوں میں فاٹا کے علاقے صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بن جائی گے۔ تاہم فاٹا ریفارمز کمیٹی میں نصف آبادی یعنی خواتین کو حیران کن طور پر نمائندگی سے محروم رکھا گیا۔

فاٹا کے لیے مجوزہ اصلاحات میں ایک سو سولہ سال سے نافذ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن قوانین کو ختم کر کے اس کی رواج ایکٹ کے نام سے قوانین لانے کی تجویز دی گئی ہے۔  جبکہ ایف سی آر کی جگہ جرگہ سسٹم کو فعال بنایا جائے گا لیکن اس میں بھی خواتین کی نمائندگی کے بارے میں وضاحت نہیں کی گئی۔

بعض خواتین کا کہنا ہے کہ جرگے کے فیصلے زیادہ تر خواتین کے خلاف ہوتے ہیں اس لیے ان جرگوں میں خواتین کی شرکت نہ ہونے اور ان کا مؤقف سامنے نہ آنے کی وجہ سے خواتین ہی متاثر ہوتی ہیں اور مجبوراﹰ خواتین کو ناپسندیدہ فیصلے بھی ماننے پڑتے ہیں۔

Pakistan Parlament in Islamabad
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے چند روز قبل قبائلی علاقوں میں اصلاحات کی منطوری دی ہےتصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

اس سلسلے میں فاٹا سے تعلق رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم ’’تکڑہ قبائلی خوایندے‘‘ کی رکن لیلی سے ڈوئچے ویلے نے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’ریفارمز کمیٹی کے ارکان سارے مرد تھے۔ انہوں نے سارے قبائلی علاقوں کے دوروں کے دوران صرف مردوں کی رائے لی اور کسی خاتون سے رائے نہیں لی گئی۔ اگر خواتین سے رائے لی جاتی تو اس کے بہتر نتائج سامنے آ سکتے تھے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’جرگہ سسٹم میں جتنے بھی فیصلے ہوتے ہیں ان میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ ریفارمز میں توخواتین کو نمائندگی سے محروم رکھا گیا لیکن اب منصوبہ بندی، تنظیم سازی اور ترقیاتی کاموں میں انہیں شامل کیا جائے تاکہ یہ خواتین کی ضروریات کے مطابق تجاویز دے سکیں۔‘‘

قبائلی علاقوں میں خواتین آبادی کا نصف حصہ ہے لیکن ان کے لیے تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ قبائلی علاقوں میں مجموعی شرح خواندگی سترہ فیصد جبکہ خواتین میں شرح خواندگی تین فیصد سے بھی کم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوئی ہیں لیکن ان کی بحالی کے لیے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

جب قبائلی خواتین کو نمائندگی سے محروم کرنے کے حوالے سے ڈوئچے ویلے نے سابقہ رکن قومی اسمبلی بُشرٰی گوہر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’جب بھی قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے لیے کوئی کمیٹی بنی اس میں خواتین کو نمائندگی سے محروم رکھا گیا اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ موجودہ کمیٹی میں تو فاٹا سے تعلق رکھنے والے مرد بھی نہیں تھے لیکن یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ فیصلہ سازی میں خواتین کو شامل کیا جائے۔ خواتین کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے علاقے کی بہتری کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔‘‘

سابق رکن قومی اسمبلی بشری گوہر کا مزید کہنا تھا، ’’اب جب یہ فی‍صلے عملی بنائے جائیں تو خواتیں کو برابر کی نمائندگی دی جائے کیونکہ آگے بلدیاتی اداروں اور صوبائی اسمبلی میں انہی خواتین نے جانا ہوگا۔ یہ اپنے علاقے کے لیے قانون سازی میں حصہ لیں گی اس کے انہیں کم از کم تینتیس فیصد نمائندگی دینی چاہیے۔ اسمبلی کی کمیٹیوں میں انہیں شامل کر کے درست فیصلے کرنے کا موقع فراہم کا جائے۔‘‘

قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد اعلٰی تعلیم یافتہ ہے جو قبائلی علاقوں کی بجائے پختونخوا سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ اگر خواتین کو نمائندگی دی جائے اور انہیں کام کے مواقع فراہم کیے جائیں تو نہ صرف آگاہی بلکہ تعلیم کے فروغ، صحت اور ترقیاتی کاموں میں بھی مؤثر کردار ادا کرسکتی ہیں۔