فاک لینڈ کا تنازعہ ،لاطینی اورکیریبین ممالک یک زبان
24 فروری 2010قدرتی وسائل سے مالا مال، ماہی گیری کے لئے انتہائی موزوں اور سیاحوں میں مشہور ان جزائر کو انگریزی میں The Falkland جبکہ ہسپانوی زبان میں Islas Malvinas کہا جاتا ہے۔ ان جزائرپرارجنٹائن اوربرطانیہ کےمابین تنازعہ عشروں پرانا ہے۔ برطانیہ نے انیسیوی صدی میں یہاں کا انتظام سنبھالا تھا تاہم ارجنٹائن نے اپریل 1982ء میں ان جزائر پرحملہ کرکے اختیار اپنے ہاتھ میں لیا۔ تاہم برطانوی فوج نے محض دو ماہ بعد ایک عسکری کارروائی کے بعد دوبارہ ارجنٹائن سے ان جزائر کا اختیار حاصل کرلیا۔
یہ معاملہ کئی سالوں سے دبا ہوا تھا لیکن گزشتہ دنوں برطانوی اداروں نے ان جزائر میں تیل و گیس کی تلاش کے لئے کھدائی کے منصوبوں کا اعلان کرکے اسے پھر سے زندہ کردیا ہے۔
برطانوی ’ڈیزائر پیٹرولیئم‘ نے پیر کو اعلان کیا کہ اس نے متنازعہ جزائر سے سو کلومیٹر شمال کی جانب سمندر میں تیل کی تلاش شروع کردی ہے۔ ’ڈیزائر پیٹرولئم‘ کے مطابق زیر سمندر ساڑھے گیارہ ہزار فٹ تک کھدائی کی جاچکی ہے اور یہ عمل تیس دن تک جاری رہے گا۔ اس سلسلے میں ارجنٹائن کی شدید مذمت، مخالفت اور احتجاج کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔
منگل کو ’ریو گروپ‘ کے بتیس ممالک نے ان جزائر پر ارجنٹائن کے دعوے کی حمایت کا اعلان کیا۔ میکسکو میں ہوئے اجلاس میں ارجنٹائن کی جانب سے میکسکو کے صدر کا یہ حمایتی بیان پڑھ کر سنایا گیا۔ اس دوران میکسکو کے صدر Felipe Calderon نے از خود کوئی بیان نہیں دیا۔
اس دوروزہ اجلاس میں لاطینی اور کیریبین ریاستوں کے ممالک نے اس تنازعہ کے حل کے لئے برطانیہ اور ارجنٹائن پر مذاکرات کرنے کے لئے زور دیا۔ ’ریو گروپ‘ کے ممالک نے واضح طور پر متنازعہ جزائر پر بیونس آئرس حکومت کے دعوے کی حمایت کی۔
برازیل کے صدر Luiz Inacio Lula da Silva نے متنازعہ جزائر کی خودمختاری کے سلسلے میں اقوام متحدہ سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیاہے۔ ’ریو گروپ‘ کے اس اجلاس کا ایک اور اہم مقصد خطے میں ریاست ہائےمتحدہ امریکہ اور کینیڈا کی شمولیت کے بغیر باقی ریاستوں کا ایک علاقائی اتحاد تشکیل بھی تھا۔ کیوبا کے صدر راہول کاسترو نے اس کوشش کو سراہتے ہوئے اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ اس اجلاس کے دوران تمام ممالک نے Organisation of American State OSA کی متبادل ایک ایسی تنظیم بنانے پر اتفاق رائے کیا جس میں امریکہ اور کینیڈا شامل نہیں ہوں گے۔
عالمی سیاست میں اہم کردار کے حامل برازیل اور میکسیکو بھی اس منصوبے کے حامی ہیں جس کی بدولت OSA کے متبادل ایک تنظیم بنائی جاسکے گی۔ سینتالیس امریکی ممالک کی تنظیم OAS میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ بھی شامل ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ