1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس سے مایوس تارکین وطن برطانیہ جانے کو تیار

شمشیر حیدر روئٹرز
30 جون 2017

عبدالعزیز احمد ایک مرتبہ پھر کَیلے کے نواح میں کھلے آسمان تلے رہ رہا ہے اور وہ ہر روز چینل ٹنل عبور کر کے برطانیہ پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ پیرس حکومت نے کَیلے کیمپ آٹھ ماہ قبل ختم کر دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/2fgd5
Frankreich Abschiebung von Asylsuchenden
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/J. Pitinome

گزشتہ برس اکتوبر کے مہینے میں فرانسیسی حکومت نے جب چینل ٹنل کے قریب کَیلے شہر کے نواح میں مہاجرین کے خودساختہ ’جنگل کیمپ‘ کو بلڈوزروں کی مدد سے مسمار کیا تو سترہ سالہ صومالی شہری عبدالعزیز کو بھی وہاں سے نکال کر فرانسیسی شہر غرینے میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ منتقل کر دیا گیا تھا۔

اسپین پہنچنے کے لیے بس تلے چھپ کر 140 میل فاصلہ طے کیا

اٹلی کی مہاجرین کو واپس بھیج دینے کی دھمکی

عبدالعزیز نے فرانس میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواست جمع کرا دی لیکن فرانسیسی افسر شاہی اور ملکی پناہ کے پیچیدہ اور سست نظام نے محض چار ماہ بعد ہی اسے فرانس میں پناہ کے حصول سے مایوس کر دیا اور وہ واپس کیَلے آ گیا۔

آج کل وہ کَیلے کے نواحی علاقے میں فرانس اور برطانیہ کو ملانے والی زیر سمندر چینل ٹنل کے قریب کھلے آسمان تلے رہ رہا ہے۔ اس کے روز و شب اس شاہراہ سے گزرنے والے تیز رفتار ٹرکوں پر چڑھنے کی کوشش میں اور مقامی پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے میں گزرتے ہیں۔ رہائش کے علاوہ اس کے پاس کھانے پینے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے اور اس کا انحصار سماجی تنظیموں کی جانب سے فراہم کردہ خوراک پر ہے

سماجی تنظیموں اور حکومتی اندازوں کے مطابق کیلے کے نواح میں اس وقت چھ سو سے زائد مہاجرين موجود ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو ’جنگل کیمپ‘ میں پہلے بھی رہتے رہے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو پہلی مرتبہ برطانیہ جانے کی خواہش میں کیَلے پہنچے ہیں۔ ان سب کی ایک ہی خواہش ہے کہ وہ کسی بھی طریقے سے برطانیہ پہنچ کر ایک نئی زندگی شروع کر پائیں۔

روئٹرز سے گفت گو کرتے ہوئے عبدالعزیز ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگا، ’’ہم جانتے ہیں کہ یہ خطرناک کام ہے، لیکن ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے کیوں کہ فرانس پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں میں تاخیر کر رہا ہے، اسی لیے لوگ یہاں واپس آ رہے ہیں۔‘‘ چینل ٹنل عبور کرنے کے لیے یہ افراد چلتے ہوئے ٹرکوں پر سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور مقامی پولیس انہیں روکنے کی بھرپور کوشش کرتی ہی۔ عبدالعزیز کہنے لگا، ’’یہاں کی پولیس ہمارے ساتھ کافی سخت رویہ رکھتی ہے لیکن اللہ کا شکر ہے میں یوسین بولٹ جیسی رفتار سے بھاگ سکتا ہوں۔‘‘

عبدالعزیز کا ذاتی سامان صرف ایک موبائل اور بٹوے پر مشتمل ہے، جسے وہ بڑی حفاظت سے اپنی جیب میں سنبھال کر رکھتا ہے۔ ایک سماجی تنظیم نے اسے سونے کے لیے پلاسٹک کا ایک سلیپنگ بیگ مہیا کر رکھا ہے۔

کَیلے میں جمع ان تارکین وطن کی حالت زار یورپی یونین کی پناہ سے متعلق مشترکہ ضوابط نہ بنا پانے اور ناکامی کی علامت ہے۔ نو منتخب فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جلد نمٹانے کا وعدہ کیا ہے۔

دوسری جانب اٹلی اور یونان پناہ گزینوں کا بھاری بوجھ برداشت کیے ہوئے ہیں اور یونین کے دیگر ارکان کے رویوں سے نالاں ہو کر اٹلی نے آخر کار اپنے ہاں مزید تارکین وطن کی آمد روک دینے کی دھمکی بھی دے دی ہے جس کے باعث بحیرہ روم میں تارکین وطن کو بچا کر اطالوی ساحلوں پر پہنچانے والی فرانسیسی سماجی تنظیموں کو اب شاید مزید مہاجرین فرانسیسی بندرگاہوں پر لانے پڑیں گے۔

اس سال اب تک مزید کتنے پاکستانی جرمنی پہنچے؟

وہ جرمن شہر، جہاں مہاجرین کو گھر بھی ملتا ہے اور روزگار بھی