1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس میں جھگڑے کی وضاحت پانچ اعداد کے ذریعے

افسر اعوان2 جون 2016

فرانس میں حالیہ کچھ عرصے کے دوران مسلسل احتجاج کا سلسلہ دیکھا گیا ہے۔ ڈوئچے ویلے کے رپورٹر ماکس ہوفمان کے مطابق اس تنازعے کو پانچ اعداد کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Izca
تصویر: Getty Images/AFP/J. Evrard

3,511,100

یہ فرانس میں بے روزگار افراد کی تعداد ہے۔ یہ بے روزگار افراد کی 10.3 فیصد شرح بنتی ہے۔ یہ شرح کافی زیادہ ہے اور فرانسوا اولانڈ نے اس میں بڑی کمی لانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس حوالے سے ان کا منصوبہ کامیاب نہ ہونے دیا گیا تو وہ عہدہ صدارت کے لیے دوبارہ امیدوار نہیں بنیں گے۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح تو تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ قریب 24 فیصد نوجوانوں کے لیے کوئی نوکری ہی نہیں ہے اور یہ چیز نہ صرف فرانس کے مستقبل کے لیے پریشان کن ہے بلکہ یہ فرانس کے بڑے شہروں کی سڑکوں پر تناؤ کی بڑی وجہ بھی ہے۔ فرنچ سوشل موومنٹ “Nuit Debout” بہت سے طلبہ اور نوجوان افراد کو اپنے ساتھ شامل کر چکی ہے۔ وہ اصل میں چاہتے کیا ہیں؟ یہ ابھی واضح تو نہیں ہے مگر یہ بنیادی تبدیلیاں ہیں۔

8

یہ شرح ہے اُن فرانسیسی برسر روزگار افراد کی جو مزدور یونینوں کے رُکن ہیں۔ یہ شرح ڈنمارک یا جرمنی کے مقابلے میں کافی کم ہے کیونکہ ڈنمارک میں 66.8 فیصد جبکہ جرمنی میں 18.1 ورکرز لیبر یونینوں کے رُکن ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کی طاقت کو کم سمجھنا درست نہیں ہے۔ فرانس میں مختلف کمپنیوں کی ورکرز کونسلوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں 70 سے 80 کارکن ووٹ ڈالتے ہیں۔ گو زیادہ تر ورکرز یونینوں کا حصہ نہیں ہیں مگر وہ اپنی نمائندگی کرنے والی ان یونینوں کے اجتماعات میں بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ بعض یونینیں لیبر مارکیٹ کے لیے تجویز کردہ اصلاحات کی حامی ہیں جبکہ دیگر بالکل نہیں۔ انہیں میں سے ایک بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی CGT یونین بھی ہے جو ورکرز کی ایک بڑی تعداد کی نمائندگی کرتی ہے۔ CGT نہ صرف ان اصلاحات کو رد کرتی ہے بلکہ وہ یہ ثابت بھی کرنا چاہتی ہے کہ انہیں روک سکتی ہے۔

Frankreich Streik Bahngesellschaft SNCF
تصویر: Reuters/C. Platiau

2

یہ آرٹیکل ہے مجوزہ لیبر ریفارم کا جسے موجودہ وزیر محنت مریم الخومری کے نام کی وجہ سے ’خومری لا‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ سوشلسٹ فرانس میں لبرل ازم کا ٹچ دینا چاہتی تھیں مگر انہیں بے حساب مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر اس آرٹیکل کے حوالے سے۔ اگر اس قانون کو نافذ کر دیا جائے تو ہو گا کیا؟ یہ کافی پیچیدہ سوال ہے مگر مختصراﹰ یہ کہ کمپنیوں کو اس بات کا حق مل جائے گا کہ وہ قانونی تحفظات سے بالا ہو کر یونینوں اور اپنے ملازمین سے خود ہی معاملات طے کر سکیں گی۔ اب تک اس کے اُلٹ ہو رہا ہے۔ بعض یونینوں کو خدشہ ہے کہ اس طرح ان کی طاقت ختم ہو جائے گی۔ جبکہ بعض دیگر سمجھتی ہیں کہ اس سے ورکرز کا فائدہ ہو گا۔

127

یہ وہ درجہ ہے جہاں فرانس اپنی لیبر مارکیٹ کی لچک کے حوالے سے عالمی تقابلی جائزے میں موجود ہے۔ یہ کوئی بہتر صورتحال نہیں ہے۔ اگر تمام کیٹگریز کو جمع کیا جائے تو فرانس عالمی مارکیٹ میں 22 ویں پوزیشن پر ہے جس کی وجہ وہاں کے ریلوے کے نظام کی مثبت ریٹنگ اور تیز رفتار انٹرنیٹ کی دستیابی بھی ہے۔ مگر یورپی یونین کی اس دوسری سب سے بڑی معیشت کو بحیثیت مجموعی بہتر ہونے کی ضرورت ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ فرانس یورپ کو نیچے کی طرف کھینچ رہا ہے جس کی وجہ اس کا بڑھتا ہوا قرضہ اور معاشی نمو میں کمی ہے۔ ماہرین کے مطابق فرانس کے دوبارہ معاشی طاقت بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کی لیبر مارکیٹ میں لچک کا نہ ہونا ہے۔

14

تازہ جائزوں کے مطابق فرانسیسی شہریوں کی یہ شرح ہے جن کا کہنا ہے کہ اگر فرانسوا اولانڈ صدارت کے دوبارہ امیدوار بنے تو وہ انہیں ووٹ دیں گے۔ یہ بہت بُری شرح بھی نہیں ہے اور یہ ایسی صورت میں ہے جب صدر کے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کو کچھ ہے ہی نہیں۔ کوئی بڑی کامیابی نہیں۔ مگر اب وہ واقعی ایسا کچھ کرنے کی کوشش میں ہیں جو مثبت طریقے سے تبدیلی لا سکتا ہے۔