1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فضائی آلودگی ہر سال پچپن لاکھ افراد کی ہلاکت کا سبب

عاصم سليم13 فروری 2016

محققين نے انکشاف کيا ہے کہ فضائی آلودگی کے سبب سالانہ بنيادوں پر تقريباً پچپن لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہيں اور ان ميں سے نصف سے زيادہ ہلاکتيں تيزی سے اقتصادی ترقی کی جانب گامزن ممالک چين اور بھارت ميں ہوتی ہيں۔

https://p.dw.com/p/1Husg
تصویر: Getty Images/AFP/R. Schmidt

سائنس دانوں نے خبردار کيا ہے کہ اگر آلودگی ميں کمی لانے کے ليے زيادہ سخت اقدامات نہ کيے گئے تو آنے والوں سالوں ميں قبل از وقت اموات کی شرح ميں اضافہ جاری ہے گا۔ يہ انکشافات سائنس دانوں نے امريکی دارالحکومت واشنگٹن ميں ’امريکن ايسوسی ايشن فار دا ايڈوانسمنٹ آف سائنس‘ کانفرنس ميں جمعہ بارہ فروری کے روز کيے۔

کينيڈا کے شہر وينکوور کی يونيورسٹی آف برٹش کولمبيا کے اسکول آف پاپوليشن اينڈ پبلک ہيلتھ کے ايک پروفيسر مائيکل براؤئر نے کہا، ’’فضائی آلودگی اس وقت عالمی سطح پر صحت کے لحاظ سے چوتھا سب سے بڑا خطرہ ہے، اور بيماريوں کے حوالے سے سب سے بڑا ماحولياتی خطرہ بھی۔‘‘

انسٹيٹيوٹ فار ہيلتھ ميٹرکس کی جانب سے گلوبل برڈن آف ڈيزيز نامی مطالعے کے نتائج کے مطابق بلڈ پريشر، ڈائٹ اور تمباکو نوشی کے بعد فضائی آلودگی موت کا سبب بننے والا صحت کے لحاظ سے چوتھا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ پروفيسر مائيکل براؤئر کے مطابق لوگوں کی صحت کے معيار ميں بہتری کے حصول کے ليے فضائی آلودگی ميں کمی سب سے کارآمد طريقہ کار ثابت ہو سکتا ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ فضائی آلودگی کے سبب عالمی سطح پر ہونے والی مجموعی ہلاکتوں ميں پچپن فيصد ہلاکتيں چين اور بھارت ميں ہوتی ہيں۔ چين ميں سن 2013ميں فضائی آلودگی کے سبب تقريباً 1.6ملين افراد ہلاک ہوئے جب کہ بھارت ميں اسی عرصے کے دوران ايسی ہلاکتوں کی تعداد 1.4ملين رہی۔

چين ميں خراب آب و ہوا کی سب سی بڑا وجہ وہاں صنعتی مقاصد کے ليے جلايا جانے والا کوئلہ ہے۔ ايک تجزيے کے مطابق کوئلہ جلانے کے نتيجے ميں ہونے والی اموات سن 2013ميں 366,000رہيں۔ يہ تجزيہ پی ايچ ڈی کی ايک چينی طالبہ کائيو ما نے کيا ہے۔ ما نے مزيد پيشن گوئی کی کہ اگر فضائی آلودگی ميں کمی متعارف کرانے کے ليے مناسب اقدامات نہ کيے گئے تو سن 2030ميں يہ تقريباً دس لاکھ تا تيرہ لاکھ اموات کا سبب بن سکتی ہے۔

دوسری جانب بھارت ميں فضائی آلودگی کی اونچی شرح کی سب سے بڑی وجہ کھانا پکانے اور مکانات وغيرہ کو گرم کرنے کے ليے لکڑی، گوبر اور ديگر ايسی اشياء کو جلانا ہے۔ انڈين انسٹيٹيوٹ آف ٹيکنالوجی بمبئی ميں کيميکل انجينيئرنگ کے پروفيسر چندرا وينکت رامن کہتے ہيں، ’’صنعتی مقاصد کے ليے کوئلہ جلانے، زراعت کے ليے کھلے عام چيزيں جلانے، اور آلودگی کے گھريلو ذرائع کی روک تھام کے ليے بھارت کو کسی لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔‘‘

عالمی ادارہ صحت کے فضا سے متعلق گائڈ لائنز کے مطابق يوميہ بنيادوں پر آلودگی کو پچيس مائکرو گرام فی کيوبک ميٹر تک محدود ہونا چاہيے۔ رواں سال فروری ميں چينی دارالحکومت بيجنگ اور بھارتی دارالحکومت نئی دہلی ميں فی کيوبک ميٹر تين سو مائکرو گرام سے زيادہ مقدار ميں آلودگی ريکارڈ کی گئی تھی۔ دنيا کی پچاسی فيصد سے زائد آبادی ايسے مقامات پر رہائش پذير ہے، جہاں فضا ميں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے مقرر کردہ حد سے زيادہ آلودگی پائی جاتی ہے۔