1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطینیوں کے ساتھ براہ راست مذاکرت بہت جلد: نیتن یاہو

17 اگست 2010

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے یونان کے ایک دورے کے موقع پر وزیر اعظم جارج پاپاندریو کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں فلسطینیوں کے ساتھ بہت جلد براہِ راست مذاکرات عمل میں آنے کی اُمید ظاہر کی ہے۔

https://p.dw.com/p/OpS2
اسرائیل اور یونان کے وزرائے اعظمتصویر: AP

نیتن یاہو کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب امریکہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور روس پر مشتمل چہار فریقی مشرقِ وُسطیٰ گروپ فلسطینی رہنماؤں کو اسرائیل کے ساتھ براہِ راست امن مذاکرات کا قائل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امریکی ثالثی میں بالواسطہ بات چیت تو اس سال مارچ ہی سے ہوتی چلی آ رہی ہے تاہم فلسطینی صدر محمود عباس براہِ راست مذاکرات کے لئے صرف اُس صورت میں تیار ہیں، جب مستقبل کی ایک فلسطینی ریاست کی سرحدوں کا تعین کرنے سے متعلق کوئی خاکہ طے کر لیا جائے۔ اِس کے برعکس نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ 2008ء میں غزہ پر اسرائیلی فوجی حملے کے باعث منقطع ہو جانے والے مذاکرات غیر مشروط طور پر بحال ہوں۔

Griechenland Israel Benjamin Netanyahu bei George Papandreou in Athen
یونانی دارالحکومت ایتھنز میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور یونانی وزیر اعظم جارج پاپاندریو کی ملاقاتتصویر: AP

نیتن یاہو نے، جن  کا یونان کا دو روزہ غیر متوقع دورہ آج منگل کو اختتام کو پہنچ رہا ہے، اِس یقین کا اظہار کیا کہ مشرقِ وُسطیٰ کے لئے چار کا گروپ فلسطینیوں کو قائل کرنے کے لئے اپنی کوششوں میں کامیاب ہو جائے گا۔ ایتھنز میں یونانی وزیر اعظم کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں نیتن یاہو نے کہا: ’’یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم بغیر کسی قسم کی پیشگی شرائط کے مذاکرات عمل میں لانے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ ایسا بہت ہی جلد ہو گا۔ اِس عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ہم قاہرہ یا واشنگٹن، کہیں بھی جانے کے لئے تیار ہیں۔‘‘

یونانی وزیر اعظم جارج پاپاندریو نے اِس سلسلے میں اپنے ملک کی حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا: ’’یہ بہت ضروری ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بلاواسطہ مذاکرات فوری طور پر شروع ہوں۔ پائیدار امن کے حصول کے لئے یہ سب سے مفید راستہ ہے۔‘‘

جہاں اسرائیل غزہ امدادی قافلے پر اپنے حملے کے نتیجے میں ترکی کے ساتھ شدید تنازعے کے بعد نئے حلیفوں اور دوستوں کی تلاش میں ہے، وہاں شدید مالیاتی بحران کی زَد میں آئے ہوئے یونان کو بھی آمدنی کے نئے ذرائع اور اپنی معیشت کے لئے نئے محرکات کی ضرورت ہے۔ تاہم دونوں رہنماؤں نے زور دے کر کہا کہ اُن کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کا مقصد ترکی کو دبانا یا اُسے پیچھے دھکیلنا نہیں ہے۔ یونانی وزیر اعظم نے، جنہوں نے خود بھی ابھی گزشتہ مہینے اسرائیل کا دورہ کیا تھا، کہا:’’ہم جو اچھے تعلقات قائم کرنے جا رہے ہیں، وہ یونان اور ترکی کے باہمی تعلقات یا ترکی اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کی نفی ہرگز نہیں کرتے۔ تنازعات کے حل اور امن کے لئے علاقائی اشتراکِ عمل کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔‘‘

Netanjahu in Athen
اسرائیل اور یونان کے وزرائے اعظم ایتھنز میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کے بعد ایک دوسرے سے مصافحہ کر رہے ہیںتصویر: AP

حقیقت تو یہ ہے کہ ترکی کے ساتھ تعلقات خراب ہونے اور اسرائیلی طیاروں کے لئے ترکی کی فضائی حدود بند کئے جانے کے بعد اسرائیل کو ایسے نئے علاقوں کی اشد ضرورت ہے، جہاں اُس کی فضائیہ تربیتی پروازیں عمل میں لا سکے۔

یونان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات یورپی یونین کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہت دیر سے یعنی 1990ء میں قائم کئے تھے۔ روایتی طور پر یونان کو اِس یہودی ریاست کے بجائے عرب دُنیا کے زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے۔ نیتن یاہو یونان کا دورہ کرنے والے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم ہیں۔ نیتن یاہو کے اِس دورے کے دوران اسرائیل اور یونان نے اپنے باہمی تعلقات اور اشتراکِ عمل کو مزید فروغ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں