1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطینی ریاست کا قیام، کوششیں اور مشکلات

11 نومبر 2011

فلسطینی اپنی ایک علیحدہ خود مختار ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ یہ رپورٹیں بھی ہیں کہ فلسطینی ریاست کے قیام کی جملہ شرائط پوری ہو چکی ہیں۔ لیکن ایسی کسی ریاست کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا بہت مشکل ہو گا۔

https://p.dw.com/p/139PG
فلسطینی صدر محمود عباستصویر: AP

اس سال ستمبر میں جب فلسطینی صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کو رکنیت دینے کی درخواست دی تھی تو اس پر فلسطینی عوام نے بڑی خوشی منائی تھی۔ اس لیے کہ عام طور پر غیر واضح سوچ کا حامل سمجھے جانے والے محمود عباس نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مزید مذاکرات سے انکار کر دیا تھا۔ اس کی انہوں نے وجہ یہ بتائی تھی کہ اسرائیل کے ساتھ امن بات چیت کا گزشتہ برسوں کے دوران ویسے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔

Palästinenser Demonstration in Berlin
اسرائیل کے خلاف فلسطینی احتجاج، فائل فوٹوتصویر: AP

اقوام متحدہ میں درخواست دے کر صدر عباس نے اپنے لیے تائید و حمایت میں اضافہ تو کر لیا لیکن یہ بات کسی بھی طور یقینی نہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان کی اکثریت فلسطین کو مکمل رکنیت دینے کی حمایت کر دے گی۔ فرانس اور برطانیہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اس درخواست کی حمایت نہیں کریں گے۔ دیگر ملک بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں یا پھر امریکہ کی طرح اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کو رکنیت دینے کے مخالف ہیں۔

لیکن بات تو یہ بھی ہے کہ اگر فلسطینی ریاست کو عالمی ادارے کی مکمل رکنیت مل بھی جائے تو بھی اس ریاست کو شدید مشکلات کا سامنا ہو گا۔ سرحدی مشکلات، کمزور معیشت اور پھر اسرائیل بھی ابھی تک کسی فلسطینی ریاست میں حقیقی طور پر دلچسپی نہیں رکھتا۔ بہت سے اسرائیلی آباد کار خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے مخالف ہیں۔ یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے جرمن تاریخ کے ادارے کے سربراہ موشے زمرمین کہتے ہیں کہ کسی بھی فلسطینی ریاست کو اپنا وجود قائم رکھنے کے قابل بنانے کے لیے اسرائیل کی یہودی بستیوں سے متعلق سیاست کا تدارک کیا جانا لازمی ہے۔ ان بستیوں کا خاتمہ لازمی ہو گا۔ یا وہاں رہنے والوں کو فلسطینی ریاست کی شہریت دینا ہو گی۔ لیکن فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کار تو ان دو باتوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں چاہتے۔

NO FLASH Mahmud Abbas
اقوام متحدہ میں درخواست دینے سے صدر عباس کی تائید و حمایت میں اضافہ ہوا ہےتصویر: picture alliance/dpa

جہاں تک اقتصادی اہلیت کی بات ہے تو یہودی آبادکاری کی وجہ سے فلسطینی علاقوں میں سرمایہ کاری بہت کم ہے اور بے روزگاری بہت زیادہ۔ کئی ماہرین کے بقول موجودہ حالات میں اگر صرف اقتصادی صورت حال ہی کو مد نظر رکھا جائے تو بھی فلسطینی ریاست اپنے وجود کو قائم نہیں رکھ سکے گی۔ تجارتی حوالے سے حالات اس لیے حوصلہ افزا نہیں ہیں کہ فلسطینی علاقوں کی مصر اور اردن کے ساتھ سرحدوں کی نگرانی تو اسرائیل کرتا ہے۔

آج اگر کوئی فلسطینی ریاست قائم ہوتی ہے تو اس کا اپنا کوئی ہوائی اڈہ ہی نہیں ہو گا، ہمسایہ ملکوں کے ساتھ کوئی زمینی یا ریل رابطے بھی موجود نہیں ہوں گے۔ ایسے میں تجارت، سیاحت، ہلکی صنعتوں اور زراعت سمیت قومی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں فلسطینیوں کو شدید مشکلات کا سامنا نہیں ہے۔ ان حالات میں کسی فلسطینی خود مختار ریاست کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا انتہائی مشکل ہو گا۔

رپورٹ: آنے آلمے لِنگ / مقبول ملک

ادارت: ‌حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں