1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطین: خواتین کے متنازعہ سفری احکامات پر نظرثانی کا فیصلہ

17 فروری 2021

حماس کے زیر کنٹرول غزہ کے علاقے میں غیر شادی شدہ خواتین کو سفر پر جانے کے لیے مرد سر پرستوں سے اجازت لینی ضروری قرار دیا گیا تھا تاہم بڑے پیمانے پر نکتہ چینی کے بعد عدالت نے اس فیصلے پر نظر ثانی سے اتفاق کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3pSnd
Gaza City Frauen Protest Bewegungsfreiheit Hamas
تصویر: Adel Hana/AP Photo/picture alliance

فلسطین میں مقامی میڈیا کے مطابق حماس کے کنٹرول والے غزہ کے علاقے کے اعلی ترین شرعی جج نے منگل 16 فروری کو کہا کہ وہ اس حالیہ متنازعہ فیصلے پر نظر ثانی کریں گے جس میں غیر شادی شدہ خواتین کو اپنے مرد سر پرستوں سے اجازت نامہ حاصل کیے بغیر سفر پر جانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ 

اس متنازعہ فیصلے کا اعلان گزشتہ اتوار کو کیا گیا تھا جس پر انسانی حقوق کے علمبرداروں نے سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حکم فلسطین میں صنفی مساوات سے متعلق قوانین کی صریحا ًخلاف ورزی ہے۔ 

علماء کے اس فیصلے کو غزہ کی کونسل کے چیئرمین حسان جوجو نے بھی منظوری دیدی تھی لیکن اس کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے مظاہرین نے جب ان کے دفتر تک مارچ کیا تو انہوں نے اس میں تبدیلی کی بات کہی ہے۔

اس حوالے سے حسان جوجو نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا، ''ہم نے اس فیصلے کے مسودے پر نظر ثانی پر اتفاق کیا ہے۔'' تاہم انہوں نے یہ وضاحت نہیں کہ اس میں ممکنہ کیا تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔

وہ کنواری ہو یا نہ نہیں؟

حماس کی حمایت یافتہ غزہ کی شرعی عدالت کی سپریم کونسل نے اتوار کے روز اپنے ایک متنازعہ فیصلے میں اٹھارہ برس سے کم عمر کے لڑکوں، طلاق شدہ والدین کے بچوں اور غیر شادی خواتین کو اپنے مرد سرپرستوں سے اجازت لیے بغیر سفر کو ممنوع قرار دیا تھا۔

اس سلسلے میں کونسل کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا، ''ایک غیر شادی شدہ خاتون، چاہے وہ کنواری ہو یا نہ ہو، اسے اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر سفر پر نہیں نکلنا چاہیے۔''  اس فیصلے میں ان بچوں کو سفر پر لے جانے سے متعلق بھی ہدایات تھیں جن کے والدین طلاق کی وجہ سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔

اس حوالے سے کہا گیا تھا، ''جو چھوٹے بچے اپنی ماں کے پاس ہیں انہیں اس وقت تک اپنے باپ کے ساتھ بھی سفر پر جانے کی اجازت نہیں ہے جب تک انہیں ان کے سرپرست کی جانب اس کی اجازت حاصل نہ ہو، اور اگر ماں متفق ہو، تو بھی اس کے لیے عدالت سے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا لازمی ہے۔''

فیصلہ انسانی حقوق کے منافی

مقامی میڈیا کے مطابق شرعی کونسل کے فیصلے پر سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی اس فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے۔

آئی فون ایکس پر نقاب کے حامی مسلمانوں کا اعتراض

فلسطین کے لیے یورپی وفد نے بھی اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس نے اس حوالے سے ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا، ''یہ فیصلہ جانبدارانہ سلوک پر مبنی ہے جس سے فلسطینی خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور واضح طور پر یہ غلط سمت میں اٹھا گیا ایک قدم ہے۔'' 

جینوا میں واقع 'دی یورو میڈی ٹیریئن ہیومن رائٹس مانیٹر' کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے تو خود فلسطینی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

 ادارے نے ایک بیان میں کہا، ''غزہ پٹی کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ انسانی حقوق کے اصولوں کے نفاذ اور احترام کو یقینی بنائیں اور ایسی جانبدارانہ ہدایت یا سرکلر جاری کرنے سے باز رہیں جن سے ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔''

ص ز/ ج ا  (ڈی پی اے، روئٹرز)

کیا عبایا اسلامی لباس ہے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں