1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوجی عدالت کے خلاف سویلین اپیلیں مسترد

افسر اعوان29 اگست 2016

پاکستانی سپریم کورٹ نے اُن 16 سویلین افراد کے خلاف موت کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا ہے جنہیں دہشت گردی کے الزامات کے تحت یہ سزا ملک میں قائم فوجی عدالتوں نے سنائی تھی۔

https://p.dw.com/p/1Jrry
تصویر: dapd

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فوجی عدالتوں کی طرف سے سزائے موت سنائے جانے کے خلاف اپیل کرنے والوں نے ان عدالتوں کی کارروائی میں عدم شفافیت اور طے شدہ طریقہ کار اختیار نہ کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ سزائے موت پانے والوں کے خاندانوں کی طرف سے شکایات کی گئیں کہ ان کے رشتہ دار لا پتہ ہو گئے تھے، بعد ازاں انہیں میڈیا سے معلوم ہوا کہ ان کے بیٹوں پر دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔

تاہم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی قیادت میں پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا کہ اپیل کرنے والے یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ فوجی عدالتوں نے کسی طرح کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے یا انہوں نے طے شدہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ عدالتیں ’’غیر معمولی حالات میں‘‘ قائم کی گئی تھیں، تاکہ اس طرح کے جرائم سے نمٹا جا سکے جن کا الزام ان افراد پر عائد کیا گیا تھا۔

پاکستانی حکومت نے دسمبر 2014ء میں پشاور کے ایک اسکول میں دہشت گردانہ حملے کے بعد ملک میں سزائے موت دیے جانے کے سلسلے پر پابندی ختم کر دی تھی جبکہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے خصوصی فوجی عدالتیں بھی قائم کی گئی تھیں۔ پشاور کے آرمی اسکول میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے نتیجے میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے اکثریت بچوں کی تھی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتیں ’’غیر معمولی حالات میں‘‘ قائم کی گئی تھیں
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتیں ’’غیر معمولی حالات میں‘‘ قائم کی گئی تھیںتصویر: Reuters

انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (ICJ) کے مطابق پاکستان میں قائم 11 فوجی عدالتیں اب تک 128 فیصلے سنا چکی ہیں جن میں سے 104 مقدمات میں ملزمان کو مجرم قرار دیا گیا۔ ان میں سے صرف چار افراد موت کی سزا سے بچ سکے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

انسانی حقوق کی گروپوں کی طرف سے فوجی عدالتوں سے سنائی جانے والی سزاؤں کے حوالے سے زیادہ شفافیت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ان گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ عدالتیں دنیا کے مختلف ملکوں میں قائم ملٹری ٹریبونل کے معیارات پر بھی پورا نہیں اُترتیں۔

ICJ کی ایک قانونی مشیر ریما عمر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ 104 میں سے 98 افراد نے اپنے جرائم کو قبول کر لیا جس سے ان افراد پر ظلم اور تشدد کے امکان کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ایک مقدمے میں ہم نے دیکھا کہ سزا سنائے جانے والے ایک فرد کو ایک ایسی دستاویز پر زبردستی انگوٹھا لگانے پر مجبور کیا گیا جس کے مندرجات کا اُسے علم ہی نہیں تھا۔‘‘