1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قابل تجدید توانائی: جرمنی سب سے آگے

28 جولائی 2010

جرمنی کی وفاقی ماحولیاتی ایجنسی کی جانب سے حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والے ایک جائزے کے مطابق سن 2050ء تک جرمنی اِس قابل ہو سکتا ہےکہ اپنی بجلی کی تمام تر ضروریات توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کر سکے۔

https://p.dw.com/p/OVPH
جرمنی: ہوا سے بجلی کا حصولتصویر: AP

اگر ایسا ہو گیا تو نہ صرف ملازمتوں کے ہزارہا نئے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ جرمنی توانائی کے معدنی ذخائر کے استعمال کو خیر باد کہنے والا پہلا اہم صنعتی ملک بھی بن جائے گا۔ آج کل بھی قابلِ تجدید توانائیوں کے اعتبار سے جرمنی دُنیا کے صفِ اول کے ملکوں میں سے ایک ہے اور پوری دُنیا کو ماحول دوست ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے۔ جرمنی اپنی ضرورت کی 16 فیصد بجلی ہوا، سورج اور دیگر قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کرتا ہے۔ اِس طرح گزشتہ پندرہ برسوں کے اندر اندر جرمنی میں توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع کے استعمال میں پانچ گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

جرمنی کی وفاقی ماحولیاتی ایجنسی کے صدر یوخن فلازبارتھ نے یہ مطالعاتی جائزہ پیش کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا:’’ہمارے جائزے کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ تکنیکی اور ماحولیاتی اعتبار سے یہ بالکل ممکن ہے کہ جرمنی سن 2050ء تک مکمل طور پر قابلِ تجدید توانائیوں پر انحصار کرنے لگے۔ ماحولیاتی اعتبار سے مراد یہ ہے کہ اِس میں تحفظ ماحول کے ضوابط کی پابندی کی جائے گی اور ایسا نہیں ہو گا کہ ماحول کو کوئی نقصان پہنچے۔‘‘

Deutschland Umwelt Bundesumweltamt Jochen Flasbarth
وفاقی محکمہء ماحولیات کے صدر یوخن فلازبارتھتصویر: picture-alliance/dpa

آج اگر شمسی توانائی کے شعبے میں جرمنی دُنیا میں پہلے نمبر پر ہے تو اِس کی وجہ قابل تجدید توانائیوں سے متعلق سن 2000ء میں منظور ہونے والا وہ قانون ہے، جس میں بجلی فراہم کرنے والی بڑی کمپنیوں کو اِس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ شمسی توانائی فراہم کرنے والے اداروں سے مہنگے داموں بجلی خریدیں۔ جرمنی میں اِس سال شمسی توانائی کی پیداوار میں مزید پانچ ہزار میگا واٹ کا اضافہ ہو گا اور یوں اِس ملک میں شمسی توانائی سے حاصل کی جانے والی بجلی کی مجموعی مقدار بڑھ کر 14ہزار میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔

جرمنی ہوا سے توانائی کے حصول کے شعبے میں بھی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بعد دُنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران جرمنی میں اِن شعبوں میں ملازمتوں کے کوئی تین لاکھ نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ سن 2050ء تک مکمل طور پر قابلِ تجدید توانائیوں پر انحصار کے حوالے سے وفاقی محکمہء ماحولیات کے صدر یوخن فلازبارتھ کا کہنا تھا کہ یہ ایک حقیقت پسندانہ ہدف ہے:’’ہم نے جو خاکہ سوچا ہے، اُس کی بنیاد ہم نے آج کل دستیاب ٹیکنالوجی پر رکھی ہے۔ ہم نے ٹیکنالوجی کی اُس امکانی ترقی کو بنیاد نہیں بنایا، جو بہرحال اگلے عشروں میں دیکھنے میں آ سکتی ہے۔‘‘

Solarzellenfabrik der Shell AG
جرمن شہر گیلزن کِرشن میں شمسی سیل بنانے والے کارخانے کا شمسی سیلوں سے آراستہ مین گیٹتصویر: dpa

فلازبارتھ کا کہنا تھا کہ نت نئی ٹیکنالوجیز دریافت ہونے اور عوام میں اِس تصور کے زیادہ سے زیادہ قابلِ قبول ہونے کی صورت میں یہ رفتار مزید تیز بھی ہو سکتی ہے اور قابلِ تجدید توانائیوں پر مکمل انحصار کی منزل سن 2050ء سے پہلے بھی حاصل ہو سکتی ہے۔

جرمن حکومت نے سن 2020ء تک سبز مکانی گیسوں کے اخراج کی مقدار میں سن 1990ء کے مقابلے میں 40 فیصد اور سن 2050ء تک 80 تا 85 فیصد کمی کرنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ جرمنی کی تقریباً چالیس فیصد سبز مکانی گیسیں بجلی گھروں اور خصوصاً اُن بجلی گھروں سے پیدا ہوتی ہیں، جہاں کوئلہ جلا کر بجلی حاصل کی جاتی ہے۔

رپورٹ : امجد علی

ادارت : افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں