1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قاتلانہ حملہ: مالدیپ کے سابق صدر نشید علاج کے لیے جرمنی میں

13 مئی 2021

حال ہی میں ایک ناکام قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہو جانے والے مالدیپ کے سابق صدر محمد نشید کو علاج کے لیے اب جرمنی پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ بات جمعرات کے روز مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں حکام نے بتائی۔

https://p.dw.com/p/3tLkd
ہسپتال سے فارغ کیے جانے کے بعد محمد نشید کو انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کے تحت مالے کے ہوائی اڈے پہنچایا گیاتصویر: Mohamed Sharuhaan/AP Photo/picture alliance

محمد نشید کی عمر اس وقت 53 برس ہے اور وہ مالدیپ میں ملکی پارلیمان کے اسپیکر کے منصب پر فائز ہیں۔ وہ بحر ہند کی مجموعہ جزائر پر مشتمل ریاست مالدیپ میں جمہوری تحریک کے بانیوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں جو تحفظ ماحول کے لیے بھی بہت سرگرم رہتے ہیں۔ سابق صدر محمد نشید کو ایک ہفتہ قبل دارالحکومت مالے میں ایک بم حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ بم ایک موٹر سائیکل کے ساتھ باندھا گیا تھا اور دھماکا ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیا گیا تھا۔

سولہ گھنٹوں تک آپریشن

اس بم حملے میں محمد نشید شدید زخمی ہو گئے تھے اور ڈاکٹروں کو ان کی جان بچانے کے لیے مسلسل 16 گھنٹوں تک ان کا آپریشن کرنا پڑا تھا۔ اس دوران بم دھماکے کے نتیجے میں ان کے جگر، پھیپھڑوں اور پیٹ میں گھس جانے والے دھاتی ٹکڑے نکال لیے گئے تھے۔

مالدیپ کے سابق صدر پر ناکام قاتلانہ حملہ

محمد نشید کو مالے کے ایک ہسپتال سے آج ہی ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر فارغ کر دیا تھا کہ اب انہیں مزید علاج کے لیے جرمنی لے جایا جا سکتا ہے۔ ہسپتال سے فارغ کیے جانے کے بعد انہیں انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کے تحت مالے کے ہوائی اڈے لے جایا گیا، جہاں ایک خصوصی پرواز ان کی آمد کی منتظر تھی تاکہ انہیں لے کر جرمنی کے لیے روانہ ہو سکے۔

Malediven Rückkehr Mohamed Nasheed, ehemaliger Präsident
مالدیپ کے سابق صدر اور موجودہ پارلیمانی اسپیکر محمد نشیدتصویر: Getty Images/AFP/A. Shurau

حملے کے بعد پہلی ٹویٹ

سابق صدر نشید کی مالے کے ہسپتال سے روانگی کے وقت ہسپتال کے عملے نے ان کی ایک تصویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی۔ بعد میں محمد نشید نے چھ مئی کے روز خود پر قاتلانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ ٹوئٹر پر اپنا ایک پیغام بھی پوسٹ کیا، جس میں انہوں نے مالے کے ہسپتال کے عملے کا دلی شکریہ بھی ادا کیا۔

بھارت مداخلت سے باز رہے، مالدیپ

مالدیپ کی پولیس محمد نشید پر اس بم حملے کے سلسلے میں اب تک تین افراد کو گرفتار کر چکی ہے اور پولیس کے تفتیشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مشتبہ حملہ آوروں کا تعلق مسلم انتہا پسندوں سے ہے۔ اب تک لیکن کسی بھی عسکریت پسند یا انتہا پسند گروہ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔

مالدیپ میں دہشت گرد عناصر

مالدیپ کی آبادی صرف تین لاکھ چالیس ہزار ہے اور ملکی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے۔ وہاں ماضی میں زیر زمین انتہا پسند مسلم گروہ بھی سرگرم رہ چکے ہیں۔

Malediven Male | Anschlag auf Parlamentspräsident Mohamed Nasheed
محمد نشید پر قاتلانہ حملے میں ایک ریموٹ کنٹرول بم استعمال کیا گیا تھاتصویر: Maldives Police Service/REUTERS

مالدیپ کا بحران، ٹرمپ اور مودی کا تبادلہٴ خیال

اکتوبر 2019ء میں ملکی پولیس نے ایک ایسے مشتبہ دہشت گرد کو گرفتار کر لیا تھا، جو اس ملک سے دہشت گرد تنظیم داعش یا 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے جنگجو بھرتی کرتا تھا اور جس نے مالدیپ کے درجنوں باشندوں کو لڑنے کے لیے شام بھی بھجوایا تھا۔

نشید کی جمہوریت کے لیے جدوجہد

محمد نشید نے مالدیپ میں 2008ء میں اس وقت تک ملک میں عشروں سے قائم ایک ہی جماعت کی حکومت ختم کر دی تھی، جب انہیں اس ملک کا پہلا جمہوری طور پر منتخب صدر بننے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔

مالدیپ: کل کا قیدی، آج کا حکمران

صدر بننے کے چار سال بعد 2012ء میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ اور ان کی ڈیموکریٹک پارٹی 1,192 جزائر پر مشتمل اس جنوبی ایشیائی ملک میں جمہوریت کو مسلسل مضبوط بنانے کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

م م / ع ت (اے ایف پی)