1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قاری عثمان کا متنازعہ بیان: سیاست دانوں کو تشویش

عبدالستار، اسلام آباد
21 اکتوبر 2019

پاکستانی سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں نے جمعیت علماء اسلام کراچی کے رہنما قاری عثمان کے اس بیان پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے جس میں ناقدین کے مطابق انہوں نے ملک کی اقلیتوں کے خلاف ’زہر اگلا‘ ہے۔

https://p.dw.com/p/3RdvH
Pakistan, Peshawar: Proteste gegen die Regierung von  Imran Khan - Fazal-ur Rehman
تصویر: Reuters/F. Aziz

قاری عثمان نے ایک نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت عمران خان کی حکومت کے اس لیے خلاف ہے کیوں کہ اس حکومت نے 'مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو رہا کیا‘ اور ایک 'احمدی کواکنامک کونسل کا رکن‘ بنایا۔

اس بیان پر سوشل میڈیا پر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے اور بہت سے صارفین نے ن لیگ، پی پی پی اور دوسری سیاسی جماعتوں سے سوال کیا ہے کہ کیا وہ ایک ایسی مذہبی جماعت کے ساتھ کھڑے ہونے جارہے ہیں، جس کے رہنما مذہبی اقلیتوں کے خلاف خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔

فضل الرحمان کی ملاقاتیں: کیا پی ٹی آئی کو خطرہ ہے؟

پی پی پی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر نے اس بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں اس بیان پر شدید تحفظات ہیں۔ یہ بیان بالکل قابل قبول نہیں ہے۔ ہم نے پہلے ہی مولانا پر یہ واضح کیا تھا کہ ہم مذہب کے سیاست میں استعمال کے خلاف ہیں اور اس بات کو رہبر کمیٹی کے پہلے اجلاس میں بھی واضح کیا تھا اور جے یو آئی ایف نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ مذہبی کارڈ نہیں کھیلا جائے گا۔ اب قاری صاحب کا بیان اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے، تو ہم یقینا اس مسئلے کو رہبر کمیٹی میں بھی اٹھائیں گے اور جے یو آئی ایف کو بھی اس مسئلے پر اپنے تحفظات سے آگاہ کریں گے۔‘‘

کیا مولانا فضل الرحمان کامیاب ہوں گے؟

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ ان کا طریقہ سیاست بے نظیر بھتو کی طرح ہے۔ تاج حیدر کے مطابق، ''بلاول نے یہ بات واضح طور پر کہی ہے کہ ہمیں ملا کی سیاست نہیں بے نظیر کی سیاست کرنا ہے۔ پاکستان کوئی بھارت نہیں ہے کہ جہاں اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جائے۔ ہمارے لیے سارے پاکستانی برابر کے شہری ہیں اور ہم اس نفرت آمیز بیان کو کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘

مولانا فضل الرحمان کے ساتھ نیشنل پارٹی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت کئی سیکولر جماعتیں بھی ہیں اور قاری عثمان کے اس بیان نے ان کو پریشان کر دیا ہے۔

نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر اکرم بلوچ نے بھی اس بیان کو بہت افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا، ''یہ بیان پریشان کن ہے اور جے یو آئی ایف کی طرف سے اس کی وضاحت آنا چاہیے۔ ہم مطالبہ کریں گے کہ جے یو آئی ایف اس کی وضاحت رہبر کمیٹی کے سامنے پیش کرے۔‘‘

اکرم بلوچ کا مزید کہنا تھا، ''جہاں تک مولانا فضل الرحمان کا تعلق ہے تو انہوں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی۔ ہماری جو فضل الرحمان سے بات چیت ہوئی ہے، اس میں تو انہوں نے کوئی مذہبی بات نہیں کی بلکہ پارلیمنٹ کی برتری، امتیازی احتساب اور جمہوری معاملات پر بات چیت کی ہے۔ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔‘‘

نواز شریف کی طرف سے فضل الرحمن کی حمایت کا اعلان

تاہم کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتیں موقع پرستی کا شکار ہو رہی ہیں اور اپنے چھوٹے موٹے مفادات کے لیے ایسے مذہبی افراد کے سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں، جس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا خیال ہے کہ صرف قاری عثمان ہی نہیں ہیں بلکہ خود فضل الرحمان بھی انتہائی قابل اعتراض باتیں کر رہے ہیں۔ احسن رضا کے مطابق، ''مولانا فضل الرحمان نے حال ہی میں چنیوٹ کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے انتہائی اشتعال انگیز تقریر کی اور ایک مخصوص مذہبی اقلیت کے خلاف باتیں کیں، جو مذہبی نفرت پھیلانے کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے، جو ہمارے معاشرے کا شیرازہ بکھیرنے کا سبب بن سکتا ہے۔‘‘

خادم رضوی اور افضل قادری کی ضمانتیں منظور، رہائی ابھی باقی

احسن رضا کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو اس پر بھرپور احتجاج کرنا چاہیے۔ ’’اگر سیاسی جماعتوں نے اس پر احتجاج نہ کیا اور مولانا سے وضاحت طلب نہیں کی، تو اس سے مذہبی انتہا پسندوں کو حوصلہ ملے گا، جس سے معاشرتی ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچے گا۔‘‘

جے یو آئی ایف کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیق کریں گے۔ پارٹی کے مرکزی ترجمان حافظ حسین احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم بنیادی طور پر پارلیمنٹ کی بالا دستی، پی ٹی آئی حکومت کی برطرفی، نئے انتخابات اور شفاف احستاب کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اس پر حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کا اتفاق ہے۔ تو ہم اس معاملے کی تحقیق کریں گے اور اس حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘‘