1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قذافی کے خلاف مظاہرے جاری، پولیس کے ہوائی فائرنگ

25 فروری 2011

لیبیا کے حکمران معمر قذافی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں سے نماز جمعہ کے بعد لوگوں نے قذافی کے خلاف نعرے بازی کی۔

https://p.dw.com/p/10P9M
تصویر: dapd

لیبیا میں معمر قذافی کی حامی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کے مختلف شہروں سے جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق جمعہ کو ہونے والے احتجاج میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔ عینی شاہدین کے مطابق مظاہرین طرابلس کی ایک جامع مسجد سے معمر قذافی کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے باہر نکلے۔ اس موقع پر سادہ کپٹروں میں بھی پولیس اہلکار موجود تھے اور انہوں نے مظاہرین کو دیکھتے ہی ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ ٹی وی چینل الجزیرہ نے دو افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔ جہاں مظاہرین نے نماز جمعہ کے بعد احتجاج کا پروگرام بنایا تھا، وہیں قذافی کی فورسز نے صبح ہی سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شروع کر دی تھیں۔ دارالحکومت کی اہم مساجد کے باہر اور اطراف میں چوکیاں قائم کر لی گئیں تھیں۔

رپورٹس کے مطابق ملک کے مشرقی حصے کے متعدد شہر حکومت کے مخالفین کے زیر اثر ہیں۔ ان میں بن غازی بھی شامل ہے، جہاں سے 16 فرروی کو قذافی کے خلاف احتجاج کا آغاز ہوا تھا

لیبیا میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف ٹینکوں، جنگی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں تک کا استعمال کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود مظاہرین معمر قذافی سے اقتدار چھوڑنے کے مطالبے پر قائم ہیں۔ ان مظاہروں کے آغاز کے بعد سے قدافی کا قوم سے یہ دوسرا خطاب تھا۔

Libyen No Flash
ان مظاہروں کا آغاز مشرقی شہر بن غازی سے ہوا تھاتصویر: AP

معمر قذافی نے سرکاری ٹی وی پرخطاب کرتے ہوئے کہا کہ لیبیا کے عوام حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں افراتفری اور بغاوت، جو’لاابالی‘ نوجوان کر رہے ہیں، ان کے پاس پتھروں کے ساتھ ساتھ منشیات بھی ہیں،’یہ وہ لوگ ہیں، جو بن لادن کے زیراثر اور اس کی زیرسرپرستی کام کر رہے ہیں۔‘

دریں اثناء امریکی صدر باراک اوباما اور فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے معمر قدافی پر اپنے عوام کے خلاف ظالمانہ اور خونریز کارروائیوں کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ عام شہریوں کے خلاف طاقت کا استعمال فوری طور پر بند کیا جائے۔

مشرقی شہر بن غازی میں قدافی حکومت کے خلاف 15 فروری سے شروع ہونے والے یہ مظاہرےپورے لیبیا میں پھیل چکے ہیں۔ حقوق انسانی کی متعدد تنظیموں کے مطابق مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کے زبردست کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہو سکتی ہے۔

NO FLASH Libyen Evakuierung
لیبیا سے غیرملکیوں کا انخلا جاری ہےتصویر: picture-alliance/dpa

لیبیا سے اپنے اپنے وطن پہنچنے والے غیرملکیوں نے دارالحکومت طرابلس میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں ’شدید افراتفری اور بھیانک مناظر‘ کی اطلاعات دی ہیں۔ لیبیا میں سلامتی کی انتہائی ابتر صورتحال کے بعد تمام ممالک نے وہاں سے اپنے شہریوں کے فوری انخلا کا عمل شروع کیا تھا، جو تاحال جاری ہے۔ طرابلس کے ہوائی اڈے پر ہزاروں غیرملکی اپنے اپنے ملک واپس لوٹنے کے منتظر ہیں اور انہیں وہاں خوراک اور پانی کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے۔

لیبیا میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون رابطوں میں تعطل کی وجہ سے وہاں کی اصل صورتحال کا صحیح اندازہ لگانا تاحال ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں اب تک ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد بھی سامنے نہیں آ پائی ہے۔

لیبیا سے لندن پہنچنے والی ایک 66 سالہ برطانوی شہری ہیلینا شیہان نے فرانسیسی خبررساں ادارے AFP سے بات کرتے ہوئے کہا، ’لیبیا ایک جہنم میں تبدیل ہو چکا ہے۔ میں نے کسی ہوائی اڈے پر ایسے مناظر اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ وہاں شدید افراتفری ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہیں، جو ملک سے فوری طور پر نکلنا چاہتے ہیں۔‘

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں