1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کا احتجاج ملتوی

31 جنوری 2011

پاکستان میں لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ نے ملک کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے مرکزی دفتر کے باہر احتجاجی کیمپ لگانے کا فیصلہ ملتوی کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/107hC
آئی ایس آئی کا ہیڈکواٹرتصویر: picture alliance/dpa

لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے خفیہ اداروں کو کی گئی سخت تنبیہہ کے بعد عارضی طور پر احتجاجی کیمپ نہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ آمنہ مسعود کے مطابق عدالت نے گزشتہ سماعت کے موقع پر خفیہ ایجنسیوں پر واضح کیا ہے کہ اگر لاپتہ افراد کو بازیاب نہ کرایا گیا تو ان کے اہلکاروں کے خلاف مقدمے قائم کیے جائیں گے۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے آمنہ مسعود نے کہا کہ ان کا مقصد حکومت کی توجہ اپنے مسائل کی جانب مبذول کرانا ہے۔ انہوں نے کہا "ہم لوگ اب اتنے مایوس ہو چکے ہیں کہ سڑکوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمیں فوری انصاف چاہیے، اپنے لوگ واپس چاہیئں۔ اس سے پہلے کہ کچھ ماں باپ جو پاگل ہو چکے ہیں اور کچھ مر گئے ہیں۔ اور جو بچے بڑے ہو رہے ہیں وہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہیں حکومت ہماری مایوسی کو سمجھے۔''

Pakistan Menschenrechte Pressekonferenz
آمنہ مسعود جنجوعہ ایک عرصے سے انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے سرگرم ہیںتصویر: Abdul Sabooh

دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر اور انسانی حقوق کی ممتاز کارکن عاصمہ جہانگیر نے امید ظاہر کی ہے کہ عدالت عظمیٰ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔ لاپتہ افراد کے مقدمے کی ایک درخواست گزار عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ شہریوں کو اغواء کرنے والوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ اب انہیں اپنے کیے کا جواب دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا

‘‘ ہمارا آخری مقصد یہی ہے کہ لوگ واپس آ جائیں اور دوسرا یہ چیز ختم ہو جائے ۔۔۔۔۔۔ یہ مشق ختم ہونی چاہیے اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب ان لوگوں میں سزا سے بچ جانے کا احساس ختم ہو جائے جنہوں نے لوگوں کو اغواء کرنا اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔''

حکومت نے 8 ماہ قبل لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک عدالتی کمیشن بھی تشکیل دیا تھا جس نے اس ماہ اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں داخل کروائی ہے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے کو حل کرنے کے لیے خفیہ اداروں کے حوالے سے موثر قانون سازی کی جانی چاہیے۔

Hamid Gul
أئی ایس آئی کے سابقہ سربراہ حمید گُلتصویر: picture-alliance/ dpa

آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں جب لاپتہ افراد کا کیس داخل کرایا گیا اس وقت یہ تعداد 198 تھی لیکن گزشتہ 8 ماہ کے دوران لاپتہ افراد کی تعداد بڑھ کر 400 تک پہنچ چکی ہے۔ آمنہ مسعود نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں اگر آئندہ 3 فروری کو ہونے والی سماعت کے موقع پر خفیہ اداروں نے لاپتہ افراد کے حوالے سے تسلی بخش جواب نہ دیا تو پھر ہر صورت آئی ایس آئی کے دفتر کے باہر احتجاجی کیمپ لگایا جائیگا۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں